Bushra Ejaz

بشریٰ اعجاز

بشریٰ اعجاز کے تمام مواد

4 غزل (Ghazal)

    دل میں ہے طلب اور دعا اور طرح کی

    دل میں ہے طلب اور دعا اور طرح کی ہے خاک نشینی کی سزا اور طرح کی جب راکھ سے اٹھے گا کبھی عشق کا شعلہ پھر پائے گی یہ خاک شفا اور طرح کی جاتے ہوئے موسم کی تو پہچان یہی ہے دستک میں مجھے دے گا صدا اور طرح کی ہے ہجر کا پیرایۂ فن اور طرح کا اور وصل کہانی ہے ذرا اور طرح کی شب بھی ہے وہی ...

    مزید پڑھیے

    مری رات میرا چراغ میری کتاب دے

    مری رات میرا چراغ میری کتاب دے مرا صحرا باندھ لے پاؤں سے مجھے آب دے مرے نکتہ داں ترا فہم اپنی مثال ہے میں ہوں ایک سادہ سوال کوئی جواب دے مری چشم نم کسی رت جگے میں الجھ گئی مری نیند اوڑھ لے رات بھر مجھے خواب دے مرے گوشوارے میں کون بھرتا گیا لہو اے مری طلب مجھے ہر گھڑی کا حساب ...

    مزید پڑھیے

    منظروں کے درمیاں منظر بنانا چاہئے

    منظروں کے درمیاں منظر بنانا چاہئے رہ نورد شوق کو رستہ دکھانا چاہئے اپنے سارے راستے اندر کی جانب موڑ کر منزلوں کا اک نشاں باہر بنانا چاہئے سوچنا یہ ہے کہ اس کی جستجو ہونے تلک ساتھ اپنے خود رہیں ہم یا زمانا چاہئے تیری میری داستاں اتنی ضروری تو نہیں دنیا کو کہنے کی خاطر بس فسانا ...

    مزید پڑھیے

    محبت میں کوئی صدمہ اٹھانا چاہئے تھا

    محبت میں کوئی صدمہ اٹھانا چاہئے تھا بھلایا تھا جسے وہ یاد آنا چاہئے تھا گری تھیں گھر کی دیواریں تو صحن دل میں ہم کو گھروندے کا کوئی نقشہ بنانا چاہئے تھا اٹھانا چاہئے تھی راکھ شہر آرزو کی پھر اس کے بعد اک طوفان اٹھانا چاہئے تھا کوئی تو بات کرنا چاہئے تھی خود سے آخر کہیں تو مجھ ...

    مزید پڑھیے

7 نظم (Nazm)

    میرے خاموش خدا

    مرے خاموش خدا ساتھ مرے بول ذرا مرے اندر تو اتر میری تمنا میں دھڑک میں جو آنکھوں میں تھکن رکھ کے سفر کرتی ہوں مری راتوں کو مرے خواب نہ ڈس جائیں کہیں میرے اندر وہ خیالات نہ بس جائیں کہیں جن کو ممنوعہ زمینوں کی حکایات کہا جاتا ہے تیرگی پر جسے لکھی ہوئی وہ رات کہا جاتا ہے جس کی قسمت ...

    مزید پڑھیے

    یہ شہر نارسائی ہے

    یہ شہر نارسائی ہے یہاں دستور گویائی نہیں ہے یہاں لب کھولنا بھی جرم ہے یہاں پر جب کبھی آؤ خموشی کا ارادہ باندھ کر آؤ یہاں گونگے گھروں کی ساری دیواروں میں آوازوں کے جنگل جاگتے ہیں یہاں آنکھیں نہیں ہوتیں یہاں دل بھی نہیں ہوتے یہاں بس ایک ہی چہرہ ہے باقی سارے چہرے اس کی نقلیں ...

    مزید پڑھیے

    میں جب خود سے بچھڑتی ہوں

    مری پلکوں پہ تابندہ تری آنکھوں کے آنسو مجھے تاریک راتوں میں نئے رستے سجھاتے ہیں وجودی واہموں کی سر زمینوں پر میں جب خود سے بچھڑتی ہوں چمکتی ریت کے ذروں کی صورت جب بکھرتی ہوں مجھے وہ اپنے نم سے جوڑ دیتے ہیں مجھے خود سے ملاتے ہیں میں جب دن کی بہت لمبی مسافت میں اداسی کی تھکن سے چور ...

    مزید پڑھیے

    انہیں ڈھونڈو

    انہیں ڈھونڈھو سفر کی شام سے پہلے کسی انجام سے پہلے انہیں ڈھونڈو جو ملنے کی گھڑی میں ہم سے بچھڑے تھے دلوں سے پھوٹتے اس غم سے بچھڑے تھے جو آنکھیں خشک رکھتا ہے مگر دہلیز جاں تک پانیوں کو چھوڑ جاتا ہے جو رستہ دل کی گلیوں سے نکلتا ہو اسی رستے کی ہر اک سمت کو وہ موڑ جاتا ہے مسرت کی ہری ...

    مزید پڑھیے

    پنچھی تے پردیسی.....

    پرندے اور پردیسی کبھی واپس نہیں آتے جلا وطنوں کے پاؤں کے تلے دھرتی بڑی کمزور ہوتی ہے کبھی رستہ نہیں ہوتا کبھی سایہ نہیں ہوتا شجر کی آرزوئیں دھوپ کے آنسو بہاتی ہیں مگر بارش نہیں ہوتی پرندے اور پردیسی کبھی واپس نہیں آتے دعائیں گٹھریوں میں باندھ کر چوکھٹ پہ بیٹھی ماؤں کے پتھر ...

    مزید پڑھیے

تمام