Bilal Ahmad

بلال احمد

  • 1979

بلال احمد کی نظم

    ایک خواب

    پرانی قبریں ادھورے چہرے اگل رہی تھیں ادھورے چہرے پرانی قبروں کی سرد زا بھربھری اداسی جو اپنے اوپر گرا رہے تھے تو عارض و چشم و لب کی تشکیل ہو رہی تھی وہ ایک کن جو ہزار صدیوں سے ملتوی تھا اب اس کی تعمیل ہو رہی تھی قبور خستہ سے گاہ خیزاں و گاہ افتاں، ہجوم عصیاں ہر ایک رشتہ سے، ہر تعلق ...

    مزید پڑھیے

    سوتے میں مسکراتے بچے کو دیکھ کر

    تری مخمور سی مسکان ابھی دیکھی تو یاد آیا مری مسکان پر اک دن مجھے ماں نے بتایا تھا کہ چھوٹا تھا تو اکثر نیند میں میں مسکراتا تھا (الوہی انگلیوں کی چھیڑ کا میٹھا ترنم میرے لب پر رقص کرتا تھا) کہ جیسے گدگدی کے اک لطیف احساس کی قلقل سے میری نیند ہنستی تھی یہ گزرے کل کا قصہ ہے، وہ گزرے ...

    مزید پڑھیے

    مشکل

    خدا کو یاد کرتا ہوں تو ماں کی یاد آتی ہے ابھی ازلوں سے گرداں چاک کی مٹی کا نم آنکھوں میں روشن تھا کہ میں نے ماں کو دیکھا تھا مجھے مسکان کا پہلا صحیفہ یاد ہے اب تک کہ دل جس کی تلاوت سے سکوں کے گھونٹ بھرتا تھا کہ جس کی لو، اگرچہ وہ نہ شرقی تھی نہ غربی تھی مگر دو نین کے بلور میں کچھ یوں ...

    مزید پڑھیے

    دھند

    جب دسمبر میں دھند اترتی ہے اپنے اسرار میں لپٹتی ہوئی، تہہ بہ تہہ ہم پہ فاش ہوتی ہوئی یہ کسی یاد کے دسمبر سے دل کی سڑکوں پہ آ نکلتی ہے راہ تو راہ دل نہیں ملتا دھند جب ہم میں آ ٹھہرتی ہے کیف کی صبح خوش مقدر میں، یہ در راز ہم پہ کھلتا ہے جیسے دل سے کسی پیمبر کے، رب کی پہلی وحی گزرتی ...

    مزید پڑھیے

    نسٹالجیا

    وہ دن کتنے منور تھے کسی کو بازوؤں میں بے طرح بھرنے کی خواہش سے ایاغ جسم و جاں اک بے خودی میں جب لبا لب تھا چناروں کے بدن میں سرخ رو مستی دہکتی تھی کچھ ایسا حال بیش و کم ہمارے دل کا بھی تب تھا وہ دن کتنے منور تھے کہ بچپن کی حسیں شاموں کے سائے بات کرتے تھے تو جیسے دور افق قلقل سے ہنستا ...

    مزید پڑھیے

    تڑخن

    کوئی شیشہ چٹختا ہے کسی بلور کی تڑخن مرے کانوں تک آتی ہے ستون استخواں جس پر مرا بام شکستہ ہے یکایک ڈول جاتا ہے مری گردن سے کچھ نیچے جہاں یہ ریڑھ کی چوب ستادہ کپکپی میں ہے وہیں وسواس کے اور خوف کے اور یاس کے جنات وحشت راگ میں اپنا قدیمی گیت گاتے ہیں تناؤ اس طرح جیسے طناب جان کھنچتی ...

    مزید پڑھیے

    میری ایک بری عادت تھی

    میری ایک بری عادت تھی تو میری عادت کے ہاتھوں کیسی زچ اور کتنی دق تھی جب حیرت کی انگلی تھامے تیرے ساتھ چلا کرتا تھا اک شیریں مسکان کی بیلیں میرے تن بوٹے کے اوپر استحقاق سے چڑھتی تھیں اور اک لمس کا گاتا پانی نس نس دیپ جلاتا تھا لمس کے جگنو اور مسکان کی تتلی میرے کھلونے تھے ان دونوں ...

    مزید پڑھیے

    دیوار کعبہ ۱۹ نومبر ۱۹۸۹

    تو مجھے گود میں لے کے یاروں عزیزوں میں بازار و دفتر کو جاتا مجھے یاد ہے یہ شہر کی نیم تاریک گلیوں میں اکثر میں سنتا تھا اک ڈر کی چاپ اپنے پیچھے سے آتی میرے بچپن کی شفاف معصوم آنکھوں میں نامہرباں جانے پہچانے چہروں کا ڈر تھا میرے دل کا یہ شیشہ اک انہونے ڈر سے تڑخ سا گیا تھا کہ جس کی ...

    مزید پڑھیے