Bashir Farooqi

بشیر فاروقی

بشیر فاروقی کی غزل

    لوگو ہم چھان چکے جا کے سمندر سارے

    لوگو ہم چھان چکے جا کے سمندر سارے اس نے مٹھی میں چھپا رکھے ہیں گوہر سارے زخم دل جاگ اٹھے پھر وہی دن یار آئے پھر تصور پہ ابھر آئے وہ منظر سارے تشنگی میری عجب ریت کا منظر نکلی میرے ہونٹوں پہ ہوئے خشک سمندر سارے اس کو غمگین جو پایا تو میں کچھ کہہ نہ سکا بجھ گئے میرے دہکتے ہوئے تیور ...

    مزید پڑھیے

    کر گیا میرے دل و جاں کو معطر کوئی

    کر گیا میرے دل و جاں کو معطر کوئی چھو کے اس طرح سے گزرا مجھے اکثر کوئی جتنی نظریں تھیں اسی شخص میں الجھی ہوئی تھیں جا رہا تھا سر بازار سنبھل کر کوئی کون سا حادثہ گزرا نہیں اس پر اس بار اور وہ ہے کہ شکایت نہیں لب پر کوئی دل کو دل ان کی نگاہوں نے بنایا ورنہ ایسا بے درد تھا دل جیسے ...

    مزید پڑھیے

    شہر فصل گل سے چل کر پتھروں کے درمیاں

    شہر فصل گل سے چل کر پتھروں کے درمیاں زندگی آ جا کبھی ہم بے گھروں کے درمیاں میں ہوں وہ تصویر جس میں حادثے بھرتے ہیں رنگ خال و خط کھلتے ہیں میرے خنجروں کے درمیاں پہلے ہم نے گھر بنا کر فاصلے پیدا کیے پھر اٹھا دیں اور دیواریں گھروں کے درمیاں عہد حاضر میں اخوت کا تصور ہے مگر تذکروں ...

    مزید پڑھیے

    میں جتنی دیر تری یاد میں اداس رہا

    میں جتنی دیر تری یاد میں اداس رہا بس اتنی دیر مرا دل بھی میرے پاس رہا عجب سی آگ تھی جلتا رہا بدن سارا تمام عمر وہ ہونٹوں پہ بن کے پیاس رہا مجھے یہ خوف تھا وہ کچھ سوال کر دے گا میں دیکھ کر بھی اسے اس سے نا شناس رہا تمام رات عجب انتشار میں گزری تصورات میں دہشت رہی ہراس رہا گلے لگا ...

    مزید پڑھیے

    اس کی نظر کا مجھ پہ کچھ ایسا اثر ہوا

    اس کی نظر کا مجھ پہ کچھ ایسا اثر ہوا دل تھا صدف مثال برنگ گہر ہوا وہ شوخیاں تھیں اور نہ وہ رنگ روپ تھا کل میں بہت اداس اسے دیکھ کر ہوا ایثار اور وفا کی مرے داستاں یہ ہے جب بھی وطن پہ وار ہوئے میں سپر ہوا وہ حادثہ تو کوئی بڑا حادثہ نہ تھا یہ اور بات دل پہ زیادہ اثر ہوا ایسا بھی ...

    مزید پڑھیے

    تذکرے میں ترے اک نام کو یوں جوڑ دیا

    تذکرے میں ترے اک نام کو یوں جوڑ دیا دوستوں نے مجھے شیشے کی طرح توڑ دیا زندگی نکلی تھی ہر غم کا مداوا کرنے چند چہروں نے خیالات کا رخ موڑ دیا اب تو آ جائیں مجھے چھوڑ کے جانے والے میں نے خوابوں کے دریچوں کو کھلا چھوڑ دیا قدرداں قیمت بازار سے آگے نہ بڑھے فن کی دہلیز پہ فن کار نے دم ...

    مزید پڑھیے

    دھوپ رکھ دی تھی مقدر نے سرہانے میرے

    دھوپ رکھ دی تھی مقدر نے سرہانے میرے عمر بھر آگ میں جلتے رہے شانے میرے میں ترے نام کا عامل ہوں وہ اب جان گئے حادثے اب نہیں ڈھونڈھیں گے ٹھکانے میرے چاند سی ان کی وہ خوش رنگ قبا وہ دستار ان کی درویشی پہ قربان خزانے میرے موج رنگ آئی کچھ اس طور کہ دل جھوم اٹھا ہوش گم کر دئے سرمست حنا ...

    مزید پڑھیے

    بدن میں رنگ بھرے لہلہا رہے ہیں چراغ

    بدن میں رنگ بھرے لہلہا رہے ہیں چراغ مہک رہی ہے فضا مسکرا رہے ہیں چراغ اجالے ڈوبے ہوئے ہیں گھنے اندھیروں میں عجب سفر ہے بہت یاد آ رہے ہیں چراغ خدا کرے کہ انہیں یہ ملاپ راس آئے ہواؤں سے جو تعلق بڑھا رہے ہیں چراغ سرور لمس کا اب شام لطف اٹھائے گی کہ دن گزر گیا نزدیک آ رہے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    اب کے جنوں میں لذت آزار بھی نہیں

    اب کے جنوں میں لذت آزار بھی نہیں زخم جگر میں سرخئ رخسار بھی نہیں ہم تیرے پاس آ کے پریشان ہیں بہت ہم تجھ سے دور رہنے کو تیار بھی نہیں یہ حکم ہے کہ سونپ دو نظم چمن انہیں نظم چمن سے جن کو سروکار بھی نہیں توڑا ہے اس نے دل کو مرے کتنے حسن سے آواز بھی نہیں کوئی جھنکار بھی نہیں ہم ...

    مزید پڑھیے

    مرے بدن میں چھپی آگ کو ہوا دے گا

    مرے بدن میں چھپی آگ کو ہوا دے گا وہ جسم پھول ہے لیکن مجھے جلا دے گا تمہارے مہرباں ہاتھوں کو میرے شانے سے مجھے گماں بھی نہ تھا وقت یوں ہٹا دے گا ہے اور کون مرے گھر میں یہ سوال نہ کر مرا جواب ترا رنگ رخ اڑا دے گا چلے بھی آؤ کہ یہ ڈوبتا ہوا سورج چراغ جلنے سے پہلے مجھے بجھا دے ...

    مزید پڑھیے