Balraj Bakshi

بلراج بخشی

بلراج بخشی کی غزل

    کہیں بھی زندگی اپنی گزار سکتا تھا

    کہیں بھی زندگی اپنی گزار سکتا تھا وہ چاہتا تو میں دانستہ ہار سکتا تھا زمین پاؤں سے میرے لپٹ گئی ورنہ میں آسمان سے تارے اتار سکتا تھا جلا رہی ہیں جسے تیز دھوپ کی نظریں وہ ابر باغ کی قسمت سنوار سکتا تھا عجیب معجزہ کاری تھی اس کی باتوں میں کہ وہ یقیں کے جزیرے ابھار سکتا تھا مرے ...

    مزید پڑھیے

    کہاں سے منظر سمیٹ لائے نظر کہاں سے ادھار مانگے

    کہاں سے منظر سمیٹ لائے نظر کہاں سے ادھار مانگے روایتوں کو نہ موت آئے تو زندگی انتشار مانگے سفر کی یہ کیسی وسعتیں ہیں کہ راستہ ہے نہ کوئی منزل تھکن کا احساس بھی نہ اترے قدم قدم رہ گزار مانگے تلاش کے باوجود سچ ہے کہ میرے حصے میں کچھ نہ آیا کہ میں نے خوشیاں ہزار ڈھونڈیں کہ درد میں ...

    مزید پڑھیے