Badr Wasti

بدر واسطی

بدر واسطی کی غزل

    کس کو فرصت کون پڑھے گا چہرے جیسا سچا سچ

    کس کو فرصت کون پڑھے گا چہرے جیسا سچا سچ روز عدالت میں چلتا ہے کھوٹا سکہ جھوٹا سچ اونچے خوابوں کے تاجر سے کوئی نہیں یہ پوچھنے والا کون جوانوں کے چہروں پر لکھ دیتا ہے پیلا سچ ہم سے کیا پوچھو گے صاحب شہر کبھی کا ٹوٹ چکا شام کی میلی چادر پر ہے ٹکڑے ٹکڑے پھیلا سچ ان آنکھوں میں ...

    مزید پڑھیے

    تمہارے دل میں جو غم بسا ہے تو میں کہاں ہوں

    تمہارے دل میں جو غم بسا ہے تو میں کہاں ہوں یہ میں نہیں کوئی دوسرا ہے تو میں کہاں ہوں ہماری پلکوں کے خواب آخر اداس کیوں ہیں اگر یہ تم کو ہی سوچنا ہے تو میں کہاں ہوں وہ میری تصویر میری خوشبو خیال میرا تمہارا کمرہ سجا ہوا ہے تو میں کہاں ہوں کسی نے دیکھا تو کیا کہے گا تم ہی ...

    مزید پڑھیے

    وہ جب دے گا جو کچھ دے گا دے گا اپنے والوں کو

    وہ جب دے گا جو کچھ دے گا دے گا اپنے والوں کو ویسے بھی کچھ ملتا کب ہے دھوپ میں تپنے والوں کو دین دھرم محفوظ ہیں لیکن تصویروں جزدانوں میں وقت پڑے تو لے آتے ہیں مالا جپنے والوں کو خوابوں کی بارش تو سارے زخم ہرے کر دیتی ہے نیند کہاں سے آئے گی پھر بھیگے سپنے والوں کو اخباروں کی سرخی ...

    مزید پڑھیے

    چراغوں میں اندھیرا ہے اندھیرے میں اجالے ہیں

    چراغوں میں اندھیرا ہے اندھیرے میں اجالے ہیں ہمارے شہر میں کالی ہوا نے پر نکالے ہیں ہمیں شب کاٹنے کا فن وراثت میں ملا ہم نے کبھی پتھر پکائے ہیں کبھی سپنے ابالے ہیں دلوں میں خوف ہے اس کا نظر ہے اس کی رحمت پر گناہ گاروں میں شامل ہیں مگر اللہ والے ہیں لڑے تھے ساتھ مل کر ہم چراغوں ...

    مزید پڑھیے

    ذہن اور دل میں جو رہتی ہے چبھن کھل جائے

    ذہن اور دل میں جو رہتی ہے چبھن کھل جائے آئے کاغذ پہ تو سلمائے سخن کھل جائے قطرۂ‌ دیدۂ نمناک مسیحائی کرے فکر کے بند دریچوں کی شکن کھل جائے میں اسے روز مناتا ہوں سحر ہونے تک میرے اللہ کسی شب تو یہ دلہن کھل جائے ایک خوشبو سی ہے جو روح کی گہرائی میں لفظ مل جائیں تو معنی کا چمن کھل ...

    مزید پڑھیے

    پھل درختوں سے گرے تھے آندھیوں میں تھال بھر

    پھل درختوں سے گرے تھے آندھیوں میں تھال بھر میرے حصے میں مگر آئے نہیں رومال بھر پہلے سارے پنچھیوں کو پر ملیں پرواز کے پھر شکاری سے کہے کوئی کہ اپنا جال بھر موسموں کی سختیاں تو بادلوں سی اڑ گئیں آج بھی محفوظ کب ہے دل کا شیشہ بال بھر دھند ہی چھائی رہی آنکھوں میں تم سے کیا کہیں اب ...

    مزید پڑھیے

    دھانی سرمئی سبز گلابی جیسے ماں کا آنچل شام

    دھانی سرمئی سبز گلابی جیسے ماں کا آنچل شام کیسے کیسے رنگ دکھائے روز لبالب چھاگل شام چرواہے کو گھر پہنچائے پہرے دار سے گھر چھڑوائے آتے جاتے چھیڑتی جائے دروازے کی سانکل شام سورج کے پاپوں کی گٹھری سر پر لادے تھکی تھکی سی خاموشی سے منہ لٹکائے چل دیتی ہے پیدل شام بے حس دنیا داروں ...

    مزید پڑھیے

    اقرار کسی دن ہے تو انکار کسی دن

    اقرار کسی دن ہے تو انکار کسی دن ہو جائے گی اب آپ سے تکرار کسی دن چاہا کبھی سوچا کبھی تصویر بنائی چھوڑا نہ تری یاد نے بے کار کسی دن پلکوں پہ ستارے لیے راہوں میں کھڑے ہیں فرصت ہو تو آ جائیے سرکار کسی دن دنیا میں سدا چلتی ہے چاہت کی حکومت آ جاؤ منا لیں گے ہم اتوار کسی دن آیا ہے ...

    مزید پڑھیے

    برا ہو کر بھی وہ اچھا بہت ہے

    برا ہو کر بھی وہ اچھا بہت ہے وہ جیسا ہے نہیں بنتا بہت ہے نمک تو کم نہیں ہے روز و شب میں سواد زندگی پھیکا بہت ہے فریب سادگی ہے یا شرارت میں یہ سمجھا کہ وہ میرا بہت ہے تجھے سوچا کیا شب بھر سنوارا نہیں ایسا نہیں ویسا بہت ہے اسی سے بات کرنا ہے کہ جس نے ہمیں سمجھا نہیں پوچھا بہت ...

    مزید پڑھیے

    فکر اہل ہنر پہ بیٹھی ہے

    فکر اہل ہنر پہ بیٹھی ہے شاعری سیم و زر پہ بیٹھی ہے پہلے ہاتھوں میں ہاتھ رہتا تھا زندگی اب کمر پہ بیٹھی ہے سہمی سہمی ہوئی سی ہر خواہش دل وحشت اثر پہ بیٹھی ہے پھول کانٹوں کے بیچ رہتے ہیں خوشبو تتلی کے پر پہ بیٹھی ہے آستینیں ٹٹول کر دیکھو دوستی کس ڈگر پہ بیٹھی ہے

    مزید پڑھیے