Aziz Tamannai

عزیز تمنائی

  • 1926

عزیز تمنائی کی غزل

    دہر میں اک ترے سوا کیا ہے

    دہر میں اک ترے سوا کیا ہے تو نہیں ہے تو پھر بھلا کیا ہے صلۂ ذوق مے کشی معلوم ظرف کیا شے ہے حوصلہ کیا ہے حاشیے اپنے متن ہے ان کا محتسب پھر سزا جزا کیا ہے پوچھتا ہوں ہر ایک سائے سے چاندنی کا اتا پتا کیا ہے ان کو ہے دعویٰ مسیحائی جو نہیں جانتے شفا کیا ہے کس لئے گردش مدام میں ...

    مزید پڑھیے

    کرتے رہے تعاقب ایام عمر بھر

    کرتے رہے تعاقب ایام عمر بھر اڑتا رہا غبار بہر گام عمر بھر حسرت سے دیکھتے رہے ہر خوش خرام کو ہم صورت طیور تہ دام عمر بھر ہر چند تلخ کام تھا ہر جرعۂ حیات منہ سے لگائے بیٹھے رہے جام عمر بھر ہر شاخ نو بہار تھی آلودۂ غبار ڈھونڈا کئے نشیمن آرام عمر بھر کچھ کام آ سکیں نہ یہاں بے ...

    مزید پڑھیے

    اٹھا کے میرے ذہن سے شباب کوئی لے گیا

    اٹھا کے میرے ذہن سے شباب کوئی لے گیا اندھیرے چیختے ہیں آفتاب کوئی لے گیا میں سارے کاغذات لے کے دیکھتا ہی رہ گیا ثواب کوئی لے گیا عذاب کوئی لے گیا سپرد کر کے خامشی کی مہر خوش نما مجھے لبوں سے نعرہ ہائے انقلاب کوئی لے گیا ہے اعتراف میرے ہاتھ میں جو ایک چیز تھی سنبھال کر رکھا تو ...

    مزید پڑھیے

    بڑھنے دے ابھی کش مکش تار نفس اور

    بڑھنے دے ابھی کش مکش تار نفس اور اے گوش بر آواز ذرا دیر ترس اور ہم مائل پرواز رہے جتنی لگن سے اٹھتی ہی گئی اتنی ہی دیوار قفس اور یہ آتش شوق اور یہ دو چار پھواریں اے ابر سیہ مست ذرا کھل کے برس اور اک قافلۂ زیست بچھڑ جائے تو کیا غم آتی ہے بہت دور سے آواز جرس اور فردا میں بہاروں کے ...

    مزید پڑھیے

    اب کون سی متاع سفر دل کے پاس ہے

    اب کون سی متاع سفر دل کے پاس ہے اک روشنئ صبح تھی وہ بھی اداس ہے اک ایک کرکے فاش ہوئے جا رہے ہیں راز شاید یہ کائنات قرین قیاس ہے سمجھا گئی یہ تلخئ پیہم فراق کی اک مژدۂ وصال میں کتنی مٹھاس ہے ہر چیز آ رہی ہے نظر اپنے روپ میں اترا ہوا فریب نظر کا لباس ہے اک گردش دوام میں روز ازل سے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2