Aziz Tamannai

عزیز تمنائی

  • 1926

عزیز تمنائی کے تمام مواد

15 غزل (Ghazal)

    ہر ایک رنگ میں یوں ڈوب کر نکھرتے رہے

    ہر ایک رنگ میں یوں ڈوب کر نکھرتے رہے خطوط نقش مصور میں رنگ بھرتے رہے خدا بچائے بگولوں کی زد میں آئے ہیں وہ برگ سبز جو موج ہوا سے ڈرتے رہے انہیں کے پاؤں سے لپٹی ہوئی ہے موج حیات جو بے کنار سمندر کے پار اترتے رہے کہاں تھی جرأت نظارۂ جمال سحر اگرچہ گیسوئے شب رات بھر سنورتے ...

    مزید پڑھیے

    جس کو چلنا ہے چلے رخت سفر باندھے ہوئے

    جس کو چلنا ہے چلے رخت سفر باندھے ہوئے ہم جہاں گشت ہیں اٹھے ہیں کمر باندھے ہوئے یوں تو ہر گام کئی دام ہیں دشت شب میں ہم بھی آئے ہیں پر و بال سحر باندھے ہوئے سوئے افلاک سفیران دعا جائے ہیں ڈر ہے لوٹ آئیں نہ زنجیر اثر باندھے ہوئے اہل زنداں ہیں ابھی منتظر فصل بہار شاخ فردا سے خیال ...

    مزید پڑھیے

    افق کے اس پار کر رہا ہے کوئی مرا انتظار شاید

    افق کے اس پار کر رہا ہے کوئی مرا انتظار شاید اسی کی جانب چلی ہے شام و سحر کی یہ رہ گزار شاید قفس میں دور و دراز سے بھینی بھینی خوشبو سی آ رہی ہے چمن چمن ہم کو ڈھونڈتی ہوگی موج فصل بہار شاید ہزار بار آزما چکا ہے مگر ابھی آزما رہا ہے ابھی زمانے کو آدمی کا نہیں ہے کچھ اعتبار شاید نہ ...

    مزید پڑھیے

    خلوت ہوئی ہے انجمن آرا کبھی کبھی

    خلوت ہوئی ہے انجمن آرا کبھی کبھی خاموشیوں نے ہم کو پکارا کبھی کبھی لے دے کے ایک سایۂ دیوار آرزو دیتا ہے رہروؤں کو سہارا کبھی کبھی کس درجہ دل فریب ہیں جھونکے امید کے یہ زندگی ہوئی ہے گوارا کبھی کبھی سونپا ہے ہم نے جس کو ہر اک لمحۂ حیات اے کاش ہو سکے وہ ہمارا کبھی کبھی اے موج ...

    مزید پڑھیے

    زندگی یوں تو گزر جاتی ہے آرام کے ساتھ

    زندگی یوں تو گزر جاتی ہے آرام کے ساتھ کشمکش سی ہے مگر گردش ایام کے ساتھ رفعتیں دیکھتی رہ جاتی ہیں اس کی پرواز وہ تصور کہ ہے وابستہ ترے نام کے ساتھ مل ہی جائے گی کبھی منزل مقصود سحر شرط یہ ہے کہ سفر کرتے رہو شام کے ساتھ دام ہستی ہے خوش آئند بھی دل کش بھی مگر اڑتے جاتے ہیں گرفتار ...

    مزید پڑھیے

تمام

14 نظم (Nazm)

    صفر

    گہری نیند میں سارے عناصر بکھر گئے بچی کھچی پونجی کو سوا نیزے کا سورج چاٹ گیا مجھ سے حساب طلب کرتے ہو میں تو ایک عظیم صفر ہوں

    مزید پڑھیے

    پرچھائیاں

    ذروں کے دہکتے ایواں میں دو شعلہ بجاں لرزاں سائے مصروف نزاع باہم ہیں اڑ اڑ کے غبار راہ عدم ایواں کے بند دریچوں سے ٹکرا کے بکھرتے جاتے ہیں کہرے میں پنپتی سمتوں سے نازاد ہواؤں کے جھونکے نادیدہ آہنی پردوں پر رہ رہ کے جھپٹتے رہتے ہیں اک پل دو پل کی بات نہیں ذروں کے محل کی بات نہیں ہر ...

    مزید پڑھیے

    ہیولیٰ

    مہ و سال کے تانے بانے کو زریں شعاعوں کی گل کاریاں میری نظروں نے بخشی ہیں آفاق کے خد و خال بہار آفریں میں مرے خوں کی سوغات شامل ہے ہر وسعت بے کراں میں مری دھڑکنیں گونجتی ہیں ہر اک لمحہ کوئی نہ کوئی بگولہ اٹھا اور مرے نقش پا کو مٹانے کی دھن میں چلا لیکن آواز پا کی گرجتی گھٹاؤں ...

    مزید پڑھیے

    میری آہٹ

    میری آہٹ گونج رہی ہے دنیا کی ہر راہ گزر میں اوشا میرے نقش قدم پر خوشبو کی پچکاری لے کر رنگ چھڑکتی جاتی ہے سورج کے البیلے مغنی جنبش پا کے سرگم پر سنگیت سناتے جاتے ہیں سجی سجائی شام کی دلہن شب کی سیہ اندام ابھاگن میرے من کی نازک دھڑکن ایک ہی تال پہ لہراتی ہیں چنچل لہریں سرکش ...

    مزید پڑھیے

    مراجعت

    دہکتے سورج کا سرخ چہرہ لپیٹ کر رکھ دیا گیا ہے خلا میں سیارے بکھرے بکھرے ہیں جوف افلاک پھٹ پڑا ہے پہاڑ دھنکے ہوئے فضاؤں میں تیرتے ہیں اتھاہ ساگر کف دہن سے سلگتے لاوے اگل رہے ہیں کوئی مرے منتشر عناصر کو پھر سے پہلا سا روپ دے کر کشاں کشاں لے چلا ہے گویا جھلس رہا ہے بدن مری ہڈیاں ...

    مزید پڑھیے

تمام