Aziz Badayuni

عزیز بدایونی

عزیز بدایونی کی غزل

    قلب ہستیٔ فگار دیکھ لیا

    قلب ہستیٔ فگار دیکھ لیا آرزو کا مزار دیکھ لیا ہوش گم ہو گئے زمانہ کے زندگی کا خمار دیکھ لیا لب کشا یوں ہوا کوئی غنچہ جیسے اک آبشار دیکھ لیا پھر کوئی بار بار کیوں دیکھے جب تجھے ایک بار دیکھ لیا دامن صبر تار تار ہوا آپ کا انتظار دیکھ لیا زندگی بھی ہمیں عزیزؔ نہیں آرزو کا مزار ...

    مزید پڑھیے

    اٹھو ردائے رعونت کو تار تار کریں

    اٹھو ردائے رعونت کو تار تار کریں خدا کے نام پہ انسانیت سے پیار کریں چلو چمن میں چراغاں بصد وقار کریں بڑھو حیات کے دامن کو لالہ زار کریں نئی فضائیں نئی نکہتیں نئی راہیں گل مراد سے دامن کو مشک بار کریں بھٹک نہ جائے یہ انسان آج راہوں میں نشان منزل مقصود استوار کریں افق کے پار جو ...

    مزید پڑھیے

    بقا صدف کی گہر کے سوا کچھ اور نہیں

    بقا صدف کی گہر کے سوا کچھ اور نہیں وفا شعور بشر کے سوا کچھ اور نہیں غلط غلط کہ محبت فریب ہستی ہے یہ ربط خاص اثر کے سوا کچھ اور نہیں شعاع مہر منور میں ماہ تاباں میں کسی کی پہلی نظر کے سوا کچھ اور نہیں ابھی جنوں کو گزرنا ہے شاہراہوں سے جنوں کی حد ترے در کے سوا کچھ اور نہیں وہ شام ...

    مزید پڑھیے

    مرجھائے ہوئے پھر گل تر دیکھ رہی ہوں

    مرجھائے ہوئے پھر گل تر دیکھ رہی ہوں ناقدرئ ارباب ہنر دیکھ رہی ہوں پھر چشم تغافل سے تری حشر بپا ہے میں گردش دوراں کی نظر دیکھ رہی ہوں مژگاں پہ لرزتے ہوئے اشکوں کے دیے ہیں وابستۂ جاں برق و شرر دیکھ رہی ہوں کیا حسن بصارت میں بصیرت کی کمی ہے کچھ اہل نظر چاک جگر دیکھ رہی ہوں پندار ...

    مزید پڑھیے

    آرزوئے دل ناکام سے ڈر لگتا ہے

    آرزوئے دل ناکام سے ڈر لگتا ہے زندگانی ترے پیغام سے ڈر لگتا ہے پھر کسی جذبۂ گمنام سے ڈر لگتا ہے حسن معصوم پہ الزام سے ڈر لگتا ہے شیشۂ دل پہ کوئی ٹھیس نہ لگنے پائے تلخیٔ مے سے نہیں جام سے ڈر لگتا ہے جس کو آغاز محبت کا نہیں ہے احساس بس اسے عشق کے انجام سے ڈر لگتا ہے وقت کے ساتھ بدل ...

    مزید پڑھیے

    حسن کی بے وفائیاں توبہ

    حسن کی بے وفائیاں توبہ عشق کی سر گرانیاں توبہ مضمحل قلب منتشر ایماں مضطرب نوجوانیاں توبہ ہے رعونت کا آئینہ ششدر اف تری خود نمائیاں توبہ ایک بے نام سی خلش شاید اور خرد کی گواہیاں توبہ راستے ہیں جنوں کے ملتی ہیں اونچی نیچی سی کھائیاں توبہ لب کشمیر پر مچلتی ہیں کچھ سلگتی ...

    مزید پڑھیے

    سنو گے تم بھی مری داستاں کبھی نہ کبھی

    سنو گے تم بھی مری داستاں کبھی نہ کبھی اثر دکھائے گا درد نہاں کبھی نہ کبھی کبھی تو آتش نمرود سرد بھی ہوگی قرار پائے گا قلب تپاں کبھی نہ کبھی یہ آج گردش شام و سحر بتاتی ہے نظر بچائے گا خود آسماں کبھی نہ کبھی کبھی تو گوہر نایاب ہاتھ آئے گا ملے گا روح خودی کا نشاں کبھی نہ کبھی جمود ...

    مزید پڑھیے

    ہیں کشمکش میں آج تری داستاں سے ہم

    ہیں کشمکش میں آج تری داستاں سے ہم اے دل شروع کریں یہ حکایت کہاں سے ہم تیرا خلوص تیری محبت تری نظر کس طرح چھین لائیں مہ و کہکشاں سے ہم نازاں ہے کوئی اپنے تغافل پہ مرحبا مجبور ہو رہے دل ناز داں سے ہم جوش جنوں نے تھام لیا ہے خلوص ہے گزرے قدم قدم پہ نئے امتحاں سے ہم قحط وفا میں ...

    مزید پڑھیے

    سوز دل و جاں اور ہے ساز دل و جاں اور

    سوز دل و جاں اور ہے ساز دل و جاں اور احساس بیاں اور ہے ادراک نہاں اور دنیائے محبت میں زمیں اور زماں اور اک شعلہ بجاں نغمہ کناں راز نہاں اور شاعر کا جہاں اور ہے شاطر کا جہاں اور مفہوم محبت کا یہاں اور وہاں اور اے چاند کی مفلوج فضاؤں کے مسافر ہے منتظر دید ابھی بزم جہاں اور خود ...

    مزید پڑھیے

    دل بیتاب کو بہلا چکی ہوں

    دل بیتاب کو بہلا چکی ہوں ستارے آسماں سے لا چکی ہوں نگاہ کہکشاں سے پوچھ لینا شعاع زندگانی پا چکی ہوں خرد کی تنگ وادی سے نکل کر جنوں کی منزلت اپنا چکی ہوں اندھیروں میں چراغاں کرنے والو اجالوں میں اندھیرا پا چکی ہوں زمیں کی پستیوں کو کیوں گلہ ہے جنہیں میں آسماں بتلا چکی ...

    مزید پڑھیے