عزیز انصاری کی غزل

    اچھائی سے ناتا جوڑ ورنہ پھر پچھتائے گا

    اچھائی سے ناتا جوڑ ورنہ پھر پچھتائے گا الٹے سیدھے دھندے چھوڑ ورنہ پھر پچھتائے گا مستقبل کی تیاری کرنے میں ہے ہشیاری وقت سے آگے تو بھی دوڑ ورنہ پھر پچھتائے گا دیواریں جو حائل ہیں تیری ہار پہ مائل ہیں دیواروں سے سر مت پھوڑ ورنہ پھر پچھتائے گا دولت دینے سے عزت بچتی ہے تو کر ...

    مزید پڑھیے

    پھول جو دل کی رہ گزر میں ہے

    پھول جو دل کی رہ گزر میں ہے جانے کس کے وہ انتظار میں ہے فکر بھی لطف انتظار میں ہے بے قراری بھی کچھ قرار میں ہے زندگی تجھ سے کیا امید رکھوں تو کہاں میرے اختیار میں ہے اپنا دشمن ہے یہ جہاں سارا کتنی طاقت ہمارے پیار میں ہے کوئی حرکت نہیں ہے ڈالی میں کیا پرندے کے انتظار میں ہے کر ...

    مزید پڑھیے

    گھٹ گھٹ کر مر جانا بھی

    گھٹ گھٹ کر مر جانا بھی ہنسنا اور ہنسانا بھی اپنے لیے ہی مشکل ہے عزت سے جی پانا بھی بھرنا جام کو اشکوں سے پھر اس کو پی جانا بھی پاس مرے آ جاؤ تو آ کے پھر نا جانا بھی جس پہ اتنے شعر کہے اس پہ اک افسانا بھی

    مزید پڑھیے

    کچھ زندگی میں عشق و وفا کا ہنر بھی رکھ

    کچھ زندگی میں عشق و وفا کا ہنر بھی رکھ رشتہ خوشی سے جوڑ غم معتبر میں رکھ شہروں میں زندگی کا سفر اب محال ہے بہتر تو یہ ہے صحرا پہ اپنی نظر بھی رکھ دنیا کے حادثات سے بھی رکھ تو واسطہ حالات گھر کے کیسے ہیں اس کی خبر بھی رکھ تلوار ہی سے فتح تو ملتی نہیں کبھی نادان پہلے اپنی ہتھیلی پہ ...

    مزید پڑھیے

    دنیا کے جنجال نہ پوچھ

    دنیا کے جنجال نہ پوچھ تجھ بن میرا حال نہ پوچھ کس نے لیا سر آنکھوں پر کس نے کیا پامال نہ پوچھ اس کی آنکھوں کو تو پڑھ کیوں ہے چہرہ لال نہ پوچھ بکھر گیا ریزہ ریزہ جیون کا بھونچال نہ پوچھ مستقبل کے سپنے دیکھ بیتے ماہ و سال نہ پوچھ تو جو چاہے حکم سنا مجھ سے مرے اعمال نہ پوچھ میرؔ ...

    مزید پڑھیے

    ہم اس کو بھول بیٹھے ہیں اندھیرے ہم پہ طاری ہیں

    ہم اس کو بھول بیٹھے ہیں اندھیرے ہم پہ طاری ہیں مگر اس کے کرم کے سلسلے دنیا پہ جاری ہیں کریں یہ سیر کاروں میں کہ اڑ لیں یہ جہازوں میں فرشتہ موت کا کہتا ہے یہ میری سواری ہیں نہ ان کے قول ہی سچے نہ ان کے تول ہی سچے یہ کیسے دیش کے تاجر ہیں کیسے بیوپاری ہیں ہماری مفلسی آوارگی پہ تم کو ...

    مزید پڑھیے

    گھر سے باہر نکل کر

    گھر سے باہر نکل کر دنیا کو بھی دیکھا کر فصلیں کاٹ برائی کی اچھائی کو بویا کر نیکی ڈال کے دریا میں اپنے آپ سے دھوکا کر سب کو پڑھتا رہتا ہے اپنے آپ کو سمجھا کر بوڑھے برگد کے نیچے دل ٹوٹے تو بیٹھا کر محفل محفل ہنستا ہے تنہائی میں رویا کر دنیا پیچھے آئے گی دیکھ تو دنیا ٹھکرا ...

    مزید پڑھیے