تمنا
دیتی ہے بے خودی شوق پہ آ کر دستک ہونے والی کو یہ کہتی ہے نہ ہو دور بھٹک جانے والی کو یہ کہتی ہے نہ جا آ مجھ تک عقل آڑے کبھی آتی ہے تو دیتی ہے جھٹک نہ مٹائے کبھی مٹنے کی تمنا میری آج تو آج رہے گی پس فردا میری دشمنوں پر کبھی گرتی ہے یہ بن کر بجلی دوستوں پر کبھی آتی ہے یہ بن کر ...