تمنا

دیتی ہے بے خودی شوق پہ آ کر دستک
ہونے والی کو یہ کہتی ہے نہ ہو دور بھٹک
جانے والی کو یہ کہتی ہے نہ جا آ مجھ تک
عقل آڑے کبھی آتی ہے تو دیتی ہے جھٹک
نہ مٹائے کبھی مٹنے کی تمنا میری
آج تو آج رہے گی پس فردا میری


دشمنوں پر کبھی گرتی ہے یہ بن کر بجلی
دوستوں پر کبھی آتی ہے یہ بن کر چھتری
گلشن حسن میں اڑتی ہے یہ بن کر تتلی
بھیس میں اس کے مرے پاس کبھی ہے آتی
روپ کیا کیا نہیں بھرتی ہے تمنا میری
کھیل کیا کیا نہیں کرتی ہے تمنا میری


کبھی عاقل کبھی کہتی ہے یہ نادان مجھے
چین دیتی کبھی کرتی ہے پریشان مجھے
گزری باتوں سے بنا دیتی ہے انجان مجھے
عالم جذب میں رکھتی ہے یہ ہر آن مجھے
ساز عشرت کے بجاتی ہے تمنا میری
خواب فردا کے دکھاتی ہے تمنا میری