رسم اندیشہ سے فارغ ہوئے ہم
رسم اندیشہ سے فارغ ہوئے ہم اپنے داماں کی شکن میں سمٹے کف ایام کی پر پیچ لکیروں میں کہیں اپنے آئندۂ نادیدہ سے سہمے ہوئے ہم گاہ اجمال گذشتہ پہ گلو گیر ہوئے جیسے دھل جائے گا بیچاری روایات کے شانوں کا غبار چند بیمار ارادوں کی عیادت چاہی گاہ نایاب دعاؤں کا شمار اور تقریر کے ...