اطہر راز کی غزل

    جینا ہے تو جینے کا سہارا بھی تو ہوگا

    جینا ہے تو جینے کا سہارا بھی تو ہوگا ہمدم مری قسمت کا ستارہ بھی تو ہوگا یہ سوچ کے اس شہر میں ہم آئے تھے شاید اے جان طلب کوئی ہمارا بھی تو ہوگا ہم عشق کی منزل میں خطاوار ہیں لیکن پہلے تری جانب سے اشارہ بھی تو ہوگا ہم گردش گرداب الم سے نہیں ڈرتے طوفاں ہے اگر آج کنارہ بھی تو ہوگا

    مزید پڑھیے

    غم کے بادل دل ناشاد پہ ایسے چھائے

    غم کے بادل دل ناشاد پہ ایسے چھائے سایۂ گل میں بھی ہم راز نہ ہنسنے پائے یوں تصور میں دبے پاؤں تری یاد آئی جس طرح شام کی بانہوں میں ستارے آئے وقت کی دھوپ میں ہم سایۂ حسرت بن کر دو گھڑی کوئے تمنا میں نہ چلنے پائے زندگی موج تلاطم کی طرح رک نہ سکی یوں تو ہر موڑ پہ طوفان ہزاروں آئے اس ...

    مزید پڑھیے

    پھولوں سے بہاروں میں جدا تھے تو ہمیں تھے

    پھولوں سے بہاروں میں جدا تھے تو ہمیں تھے کانٹوں کی چبھن پہ بھی فدا تھے تو ہمیں تھے بازار تمنا میں تو ہر شخص مگن تھا ہر موڑ پہ دنیا سے خفا تھے تو ہمیں تھے جس بت کو تصور میں خدا مان لیا تھا اس بت کی نگاہوں میں خدا تھے تو ہمیں تھے احباب کو حالات کی سازش کا گلا تھا ہر حال میں راضی بہ ...

    مزید پڑھیے