نیا پرومیتھیس
میں خوشبو جسم سمندر آنکھوں کا اک خواب چرا کر لایا تھا میں آگ چرا کر لایا تھا صحرائے وجود کی تنہائی اس خواب سے کتنی شاداں تھی اس آتش لرزاں کی تابش تخلیق کی ضو میں نمایاں تھی مرا خواب وہ میرا پھول بدن مری آگ مرے فردا کا چمن میں خوابوں سے مسرور رہا میں آتش پر مغرور رہا پھر لہر اٹھی ...