Aslam Farrukhi

اسلم فرخی

نامورادیب ،دانشور،نقاد،محقق اورشاعر، سابق پروفیسر،چیئرمین اوررجسٹرار کراچی یونیورسٹی

Eminent contemporary Pakistani Urdu fiction writer, critic,editor & academician. Father of writer & translator Asif Farrukhi.

اسلم فرخی کی غزل

    یہ حکایت تمام کو پہنچی

    یہ حکایت تمام کو پہنچی زندگی اختتام کو پہنچی رقص کرتی ہوئی نسیم سحر صبح تیرے سلام کو پہنچی روشنی ہو رہی ہے کچھ محسوس کیا شب آخر تمام کو پہنچی شب کو اکثر کلید مے خانہ شیخ عالی مقام کو پہنچی شہر کب سے حصار درد میں ہے یہ خبر اب عوام کو پہنچی پہلے دو ایک قتل ہوتے تھے نوبت اب قتل ...

    مزید پڑھیے

    زد پہ آ جائے گا جو کوئی تو مر جائے گا

    زد پہ آ جائے گا جو کوئی تو مر جائے گا وقت کا کام گزرنا ہے گزر جائے گا خود اسے بھی نہیں معلوم ہے منزل اپنی جانے والے سے نہ پوچھو وہ کدھر جائے گا آج اندھیرا ہے تو کل کوئی چراغ امید مطلع وقت پہ سورج سا نکھر جائے گا اس طرف آگ کا دریا ہے ادھر دار و رسن دل وہ دیوانہ کہ جائے گا مگر جائے ...

    مزید پڑھیے

    آگ سی لگ رہی ہے سینے میں

    آگ سی لگ رہی ہے سینے میں اب مزا کچھ نہیں ہے جینے میں آخری کشمکش ہے یہ شاید موج دریا میں اور سفینے میں زندگی یوں گزر گئی جیسے لڑکھڑاتا ہو کوئی زینے میں دل کا احوال پوچھتے کیا ہو خاک اڑتی ہے آبگینے میں کتنے ساون گزر گئے لیکن کوئی آیا نہ اس مہینے میں سارے دل ایک سے نہیں ہوتے فرق ...

    مزید پڑھیے

    ہنگامۂ ہستی سے گزر کیوں نہیں جاتے

    ہنگامۂ ہستی سے گزر کیوں نہیں جاتے رستے میں کھڑے ہو گئے گھر کیوں نہیں جاتے مے خانے میں شکوہ ہے بہت تیرہ شبی کا مے خانے میں با دیدۂ تر کیوں نہیں جاتے اب جبہ و دستار کی وقعت نہیں باقی رندوں میں بہ انداز دگر کیوں نہیں جاتے جس شہر میں گمراہی عزیز دل و جاں ہو اس شہر ملامت میں خضر کیوں ...

    مزید پڑھیے

    میں سوچتا ہوں کہیں تو خفا نہ ہو جائے

    میں سوچتا ہوں کہیں تو خفا نہ ہو جائے تری انا مری زنجیر پا نہ ہو جائے یہ جیتی جاگتی آنکھیں یہ خواب سی دنیا وفور شوق خود اپنی جزا نہ ہو جائے قدم قدم پہ بپا جشن امتحان وفا تری طرح کوئی درد آشنا نہ ہو جائے نہ دیکھ مجھ کو محبت کی آنکھ سے اے دوست مرا وجود مرا مدعا نہ ہو جائے میں جس کو ...

    مزید پڑھیے

    میں سوچتا ہوں کہیں تو خفا نہ ہو جائے

    میں سوچتا ہوں کہیں تو خفا نہ ہو جائے تری انا مری زنجیر پا نہ ہو جائے یہ جیتی جاگتی آنکھیں یہ خواب سی دنیا وفور شوق خود اپنی جزا نہ ہو جائے قدم قدم پہ بپا جشن امتحان وفا تری طرح کوئی درد آشنا نہ ہو جائے نہ دیکھ مجھ کو محبت کی آنکھ سے اے دوست مرا وجود مرا مدعا نہ ہو جائے میں جس کو ...

    مزید پڑھیے