نرم آوازوں کے بیچ
نرم آوازوں سے اک نیلی خموشی ہے رواں یک بہ یک اڑ گئے وہ کالے پرند جن کے سایوں سے شعاعوں میں تھی اک بے خوابی اب وہی خفتہ مزاجی وہی بے حرف خمار نرم آوازوں کی تھپکی سے یہ سب ہوش و حواس اپنے اظہار کے بہتے ہوئے دریا کی جگہ برف کی جھیل بنے چیخ جو نغمۂ آزاد سی لہراتی تھی نغمہ میں غرق ...