Aslam Emadi

اسلم عمادی

  • 1948

اسلم عمادی کی نظم

    نرم آوازوں کے بیچ

    نرم آوازوں سے اک نیلی خموشی ہے رواں یک بہ یک اڑ گئے وہ کالے پرند جن کے سایوں سے شعاعوں میں تھی اک بے خوابی اب وہی خفتہ مزاجی وہی بے حرف خمار نرم آوازوں کی تھپکی سے یہ سب ہوش و حواس اپنے اظہار کے بہتے ہوئے دریا کی جگہ برف کی جھیل بنے چیخ جو نغمۂ آزاد سی لہراتی تھی نغمہ میں غرق ...

    مزید پڑھیے

    موت کا انتظار سفید چاک سے

    موت کا انتظار سفید چاک سے آسمان کے سیاہ ماتھے پر دو نام ایک اللہ کا ایک رسول کا پھر سفید چاک دونوں ہونٹوں کے درمیان اس کا دودھ شیر اور شہد ملا بائیں جانب مڑ کر ایک دیوار پر کارل مارکس کا نام اس پر اگی ہوئیں خوفناک زبانیں اور اس کے اطراف کھلے ہو بجلی کے تار سانپ لپلپاتے ...

    مزید پڑھیے

    انتظار

    کبھی تم ہنس پڑو کبھی میں ہنس رہوں کہ ہم سب ایک ہی ڈالی پہ اپنے اپنے لمحے میں مہکنے اور مرجھانے کی خاطر پھول ہیں جدھر آ جائے موج روح پرور پتیاں چمکیں فضا مہکے مگر کب آئے کس جانب یہ گہرا راز ہے شاید کبھی چلتے ہوے دھارے میں کوئی سبزہ اگ آئے کوئی آواز خاموشی میں اپنے پر ہلائے مگر ...

    مزید پڑھیے

    شام کا رقص

    یک بہ یک دھوپ نیچے گری جیسے چینی کی اک طشتری ہاتھ خاموش ساعت کے آگے لرزنے لگا اور کہنے سے ہونٹوں کے اندر چھپی برق آ کر چمکنے لگی آشیاں جل گیا شام کا رقص میدان ہنگامۂ خوف میں گرم ہوتا رہا پنکھڑی پنکھڑی قطرہ قطرہ اترتا رہا میں کہ دیوار کے سامنے دھوپ کا تیز جھونکا بنوں آگ کے ...

    مزید پڑھیے

    کھوکھلے برتن کے ہونٹ

    کھوکھلے برتن کے ہونٹ صدا کے کھوکھلے بت پر وہ اپنی انگلیاں گھستے رہیں گے اندھیرے نرخرے سے بس ہوا کی رفت و آمد کا نشاں معلوم ہوتا ہے زباں پر سبز دھبے پڑتے جائیں گے چمکتے سبز دھبوں میں ٹھٹھرتے آئینے نیلی دعاؤں کے کوئی یہ ان سے کہہ دو کہ آوازیں کھڑکنے کے سوا یا دھڑدھڑانے شور اٹھنے ...

    مزید پڑھیے

    خوف

    ایک سایہ سا در آیا کوئی نیلا سایہ کانپ اٹھی شاخ نحیف کانپ اٹھی ایک نئی سی آہٹ رات بڑھتی رہی مسموم سیاہ سیل سے بچ کے اکیلا میں کہاں بیٹھا ہوں جسم سے نقطے میں تبدیل ہوا جاتا ہوں

    مزید پڑھیے

    اب رات آرہی ہے

    چلو اب دعا کرو نظمیں پڑھو وصال کی سب آیتیں پڑھو کیا رہ گیا ہے شام کا اب رات سے فراغ جب حرف خون داغ آندھی میں ایک نیم نفس بے ہوا چراغ ان قہقہوں کو روک لو اک شب کی بات ہے میں سوچتا ہوں چپ رہوں لیکن تمہیں بتاؤ کیا یہ حیات ہے

    مزید پڑھیے