اسلم بدر کی غزل

    دیواروں کو دل سے باہر رکھنے والے

    دیواروں کو دل سے باہر رکھنے والے ہم بنجارے کاندھے پر گھر رکھنے والے کوچ کا جب بھی گجر بجے اٹھ کر چل دیں گے بندھا ہوا ہم اپنا بستر رکھنے والے کیسی پروازیں کیسی آزاد فضائیں کنج قفس میں خوش ہیں شہ پر رکھنے والے آنچ سے جگنو کی چٹانیں سلگ رہی ہیں شعلے اگلیں موم کا پیکر رکھنے ...

    مزید پڑھیے

    خون اتر آیا دل کے چھالوں میں

    خون اتر آیا دل کے چھالوں میں بن رہے تھے محل خیالوں میں جاگتے جاگتے چڑھا سورج آنکھ دکھنے لگی اجالوں میں پنچھیوں ہجرتوں کی رت آئی برف جمنے لگی ہے بالوں میں بھوک نے کھینچ دی ہیں دیواریں ہم نوالوں میں ہم پیالوں میں مرثیہ اس صدی کا لکھنا ہے اور دو تین چار سالوں میں بجنے والی ہے ...

    مزید پڑھیے

    آرزو پیکر و اصنام سے خالی نکلی

    آرزو پیکر و اصنام سے خالی نکلی میں نے حسرت بھی نکالی تو خیالی نکلی آج سورج بھی دیا ہاتھ میں لے کر نکلا کوچۂ شب سے سحر بھی مری کالی نکلی جبر تقدیر سے ڈر جاتے تو مر ہی جاتے جب بھی جینے کی کوئی راہ نکالی نکلی اجنبی شہر میں اک دشت تمنا لے کر کاسۂ چشم سے بینائی سوالی نکلی تیری ٹوٹی ...

    مزید پڑھیے

    لباس گل میں وہ خوشبو کے دھیان سے نکلا

    لباس گل میں وہ خوشبو کے دھیان سے نکلا مرا یقین بھی وہم و گمان سے نکلا ہمارے ساتھ ہی اب آندھیاں بھی چلتی ہیں یہ طرز ہم سفری بادبان سے نکلا کچھ اس طرح سے بندھے ہیں زمیں کی ڈور سے ہم کہ خوف گم رہی اونچی اڑان سے نکلا نقیب میں ڈھونڈھ رہا تھا فصیل شب میں مگر مرا غنیم مرے ہی مکان سے ...

    مزید پڑھیے