آرزو پیکر و اصنام سے خالی نکلی
آرزو پیکر و اصنام سے خالی نکلی
میں نے حسرت بھی نکالی تو خیالی نکلی
آج سورج بھی دیا ہاتھ میں لے کر نکلا
کوچۂ شب سے سحر بھی مری کالی نکلی
جبر تقدیر سے ڈر جاتے تو مر ہی جاتے
جب بھی جینے کی کوئی راہ نکالی نکلی
اجنبی شہر میں اک دشت تمنا لے کر
کاسۂ چشم سے بینائی سوالی نکلی
تیری ٹوٹی ہوئی پازیب کے گھنگھرو تارے
دامن شب سے ترے کان کی بالی نکلی