Asif Jamal

آصف جمال

آصف جمال کی غزل

    بھولے ہوئے ہیں سب کہ ہے کار جہاں بہت

    بھولے ہوئے ہیں سب کہ ہے کار جہاں بہت لیکن وہ ایک یاد ہے دل پر گراں بہت کچھ رفتگاں کے غم نے بھی رکھا ہمیں نڈھال کچھ صدمہ ہائے نو سے رہے نیم جاں بہت ہم کو نہ زلف یار نہ دیوار سے غرض ہم کو تو یاد یار کی پرچھائیاں بہت وہ سرد مہریاں کہ ہمیں راکھ کر گئیں سنتے ہیں پہلے ہم بھی تھے آتش ...

    مزید پڑھیے

    ایک سرد جنگ ہے اب محبتیں کہاں

    ایک سرد جنگ ہے اب محبتیں کہاں ٹوٹتے ہوئے طلسم پھیلتا ہوا دھواں وہ بھی اپنے حسن سے بے خیال ہو چلا اور خواب بن گئیں میری سر گرانیاں قیس کی محبتیں کوہ کن کی چاہتیں اور یہ روایتیں بھولتی کہانیاں ہم سے پہلے اور بھی کر گئے وفا بہت خاک میں ملا چلے ہم بھی زندگانیاں اپنے سلسلے سے بھی ...

    مزید پڑھیے

    کیسی آشفتگیٔ سر ہے یہاں

    کیسی آشفتگیٔ سر ہے یہاں راس صحرا یہاں نہ گھر ہے یہاں ایک غم ہے کہ بے مداوا ہے ایک رونا کہ عمر بھر ہے یہاں جو بھی کاوش ہے بے صلہ بے سود جو شجر ہے وہ بے ثمر ہے یہاں اک مسافت کہ طے نہیں ہوتی منزلوں منزلوں سفر ہے یہاں یوں روایت سے کٹ گئے لیکن تجربہ جو ہے تلخ تر ہے یہاں

    مزید پڑھیے

    مگر نہیں تھا فقط میرؔ خوار میں بھی تھا

    مگر نہیں تھا فقط میرؔ خوار میں بھی تھا کہ اہل درد میں آشفتہ کار میں بھی تھا صبا کی طرح اسے بھی نہ تھا ثبات کہیں نہ جانے کیا تھا بہت بے قرار میں بھی تھا پناہ لینی پڑی تھی مجھے بھی سائے میں رہین منت دیوار یار میں بھی تھا ہزار اپنی طبیعت پہ جبر کرتا تھا میں صبر کرتا تھا بے اختیار ...

    مزید پڑھیے

    وہ بے ہنر ہوں کہ ہے زندگی وبال مجھے

    وہ بے ہنر ہوں کہ ہے زندگی وبال مجھے کمال گر نہیں دیتا تو دے زوال مجھے وہ بد گمان ہوا ہوں کہ اعتبار اٹھا صداقتوں پہ بھی کیا کیا ہیں احتمال مجھے میں اپنے آپ کو پہچاننے سے ڈرتا ہوں تباہ کر گئی یہ گرد ماہ و سال مجھے غضب ہوا تری یادوں نے ساتھ چھوڑ دیا ہنوز میری محبت ہے اک سوال ...

    مزید پڑھیے

    ہم بھی تھے گوشہ گیر کہ گمنام تھے بہت

    ہم بھی تھے گوشہ گیر کہ گمنام تھے بہت اس طرز زیست میں مگر آرام تھے بہت دنیا ہے کار خانۂ وہم و گماں تمام سچے وہی فسانے تھے جو عام تھے بہت خود اپنے اضطرار طبیعت سے تنگ تھے ہم جو شکار گردش ایام تھے بہت لپٹی رہی تو سربسر اسرار تھی وہ زلف کھلتی کبھی تو اس کے بھی پیغام تھے بہت اک عمر ...

    مزید پڑھیے

    صحرا سے بھی ویراں مرا گھر ہے کہ نہیں ہے

    صحرا سے بھی ویراں مرا گھر ہے کہ نہیں ہے اس طرح سے جینا بھی ہنر ہے کہ نہیں ہے یہ دنیا بسائی ہے جو اک بے خبری کی اس میں کہیں یادوں کا گزر ہے کہ نہیں ہے ہے جسم کے زنداں میں وہی روح کی فریاد اس کرب مسلسل سے مفر ہے کہ نہیں ہے دیوار کے سائے نے تمہیں روک لیا تھا اب ہمت ایمائے سفر ہے کہ ...

    مزید پڑھیے

    دل ہے کہ ہمیں پھر سے ادھر لے کے چلا ہے

    دل ہے کہ ہمیں پھر سے ادھر لے کے چلا ہے امید سے پھر رشتۂ جاں باندھ لیا ہے آہٹ پہ نہ چونکو کہ نہ آئے گی یہاں موت دستک پہ نہ جاؤ کہ یہ آوارہ ہوا ہے اب سنگ مداوا نہیں آشفتہ سری کا یاں سنگ سے بھی پھوڑ کے سر دیکھ لیا ہے کیا کیجیے ہر کاوش درماں ہوئی محدود ہر جادۂ امکاں ہے کہ مسدود ہوا ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ بے خواب ہوئی ہے کیسی

    آنکھ بے خواب ہوئی ہے کیسی یہ ہوا اب کے چلی ہے کیسی تو مری یاد میں روتا تو نہیں یہ ہواؤں میں نمی ہے کیسی سایہ ہے اور کشیدہ کتنا دھوپ ہے اور کڑی ہے کیسی کیسا سویا ہے مقدر اپنا اور زمیں گھوم رہی ہے کیسی رسم دنیا ہے جسے جانا ہے ہم پہ افتاد پڑی ہے کیسی گنگ ہیں زندہ دلان لاہور رسم ...

    مزید پڑھیے

    سائے کی طرح کوئی مرے ساتھ لگا تھا

    سائے کی طرح کوئی مرے ساتھ لگا تھا کیا گھر کی طرح دشت بھی آسیب زدہ تھا پرسش کو نہ تھا کوئی تو تنہا تھا بہت میں محروم جو تھا سب سے خفا رہنے لگا تھا ہر دم نئے احساس کا طوفان تھا دل میں کیا جانئے میں کون سی مٹی سے بنا تھا کیا کیا نہ پریشانیٔ خاطر سے گزر آئے کیا کیا نہ پڑے رنج کہ دیکھا ...

    مزید پڑھیے