Ashraf Ali Fughan

اشرف علی فغاں

۱۸ ویں صدی کے ممتاز شاعروں میں شامل ، میر تقی میر کے معاصر

One of the prominent 18th Century poets / Contemporary to Mir Taqi Mir

اشرف علی فغاں کی غزل

    دل دھڑکتا ہے کہ تو یار ہے سودائی کا

    دل دھڑکتا ہے کہ تو یار ہے سودائی کا تیرے مجنوں کو کہاں پاس ہے رسوائی کا برگ گل سے بھی کم اب کوہ غم اس نے جانا یہ بھروسا تو نہ تھا دل کی توانائی کا کیجیے چاک گریباں کو بہار آئی ہے ذکر بے لطف ہے یاں صبر و شکیبائی کا سرو ثابت قدم اس واسطے گلشن میں رہا نہیں دیکھا کبھی جلوہ تری رعنائی ...

    مزید پڑھیے

    بسکہ دیدار ترا جلوۂ قدوسی ہے

    بسکہ دیدار ترا جلوۂ قدوسی ہے دامن وصل بھی آلودۂ مایوسی ہے ہے کہاں بوئے وفا اس دہن شیریں میں غنچہ لب تیری زباں ہم نے بہت چوسی ہے یار گو خون مرا مثل حنا ہو پامال لیکن اپنے تئیں منظور قدم بوسی ہے دل مرا خاک شگفتہ ہو چمن میں جا کر گل میں یہ رنگ کہاں ایک تری بو سی ہے ایک دن زلف کے ...

    مزید پڑھیے

    بہار آئی ہے سوتے کو ٹک جگا دینا

    بہار آئی ہے سوتے کو ٹک جگا دینا جنوں ذرا مری زنجیر کو ہلا دینا ترے لبوں سے اگر ہو سکے مسیحائی تو ایک بات میں جیتا ہوں میں جلا دینا اب آگے دیکھیو جیتوں نہ جیتوں یا قسمت مری بساط میں دل ہے اسے لگا دینا رہوں نہ گرمیٔ مجلس سے میں تری محروم سپندوار مجھے بھی ذرا تو جا دینا خدا کرے ...

    مزید پڑھیے

    اس جور و جفا سے ترے زنہار نہ ٹوٹے

    اس جور و جفا سے ترے زنہار نہ ٹوٹے یہ دل تو کسی طرح سے اے یار نہ ٹوٹے غیروں کو نہ کر مجھ دل بسمل کے مقابل چو رنگ لگاتے تری تلوار نہ ٹوٹے وہ شیشۂ دل ہے کہ اسی سنگ جفا پر سو بار اگر پھینکیے یک بار نہ ٹوٹے رکھ قیس قدم وادئ لیلیٰ میں سمجھ کر اس دشت محبت کا کوئی خار نہ ٹوٹے جنبش میں نہ ...

    مزید پڑھیے

    ڈرتا ہوں محبت میں مرا نام نہ ہووے

    ڈرتا ہوں محبت میں مرا نام نہ ہووے دنیا میں الٰہی کوئی بدنام نہ ہووے شمشیر کوئی تیز سی لینا مرے قاتل ایسی نہ لگانا کہ مرا کام نہ ہووے گر صبح کو میں چاک گریبان دکھاؤں اے زندہ دلاں حشر تلک شام نہ ہووے آتا ہے مری خاک پہ ہم راہ رقیباں یعنی مجھے تربت میں بھی آرام نہ ہووے جی دیتا ہے ...

    مزید پڑھیے

    خون آنکھوں سے نکلتا ہی رہا

    خون آنکھوں سے نکلتا ہی رہا کاروان اشک چلتا ہی رہا اس کف پا پر ترے رنگ حنا جن نے دیکھا ہاتھ ملتا ہی رہا صبح ہوتے بجھ گئے سارے چراغ داغ دل تا شام جلتا ہی رہا کب ہوا بیکار پتلا خاک کا یہ تو سو قالب میں ڈھلتا ہی رہا بہ ہوئے کب داغ میرے جسم کے یہ شجر ہر وقت پھلتا ہی رہا کب تھما ...

    مزید پڑھیے

    حیف دل میں ترے وفا نہ ہوئی

    حیف دل میں ترے وفا نہ ہوئی کیوں تری چشم میں حیا نہ ہوئی یار نے نامہ بر سے خط نہ لیا میری خاطر عزیز کیا نہ ہوئی رہ گیا دور تیرے کوچہ سے خاک بھی میری پیش پا نہ ہوئی کٹ گئی عمر میری غفلت میں کچھ تری بندگی ادا نہ ہوئی دود دل تیری زلف تک پہنچے آہ یاں تک مری رسا نہ ہوئی چشم خوں خوار ...

    مزید پڑھیے

    اگر عاشق کوئی پیدا نہ ہوتا

    اگر عاشق کوئی پیدا نہ ہوتا تو معشوقوں کا یہ چرچا نہ ہوتا گریباں چاک کر روتے کہاں ہم اگر یہ دامن صحرا نہ ہوتا سدا رہتی توقع بلبلوں کو اگر یہ غنچۂ گل وا نہ ہوتا جدائی میں اگر آنکھیں نہ روتیں تو ہرگز راز دل افشا نہ ہوتا فغاںؔ کون اب خریدار سخن تھا اگر یہ حضرت سوداؔ نہ ہوتا

    مزید پڑھیے

    عکس بھی کب شب ہجراں کا تماشائی ہے

    عکس بھی کب شب ہجراں کا تماشائی ہے ایک میں آپ ہوں یا گوشۂ تنہائی ہے دل تو رکتا ہے اگر بند قبا باز نہ ہو چاک کرتا ہوں گریباں کو تو رسوائی ہے طاقت ضبط کہاں اب تو جگر جلتا ہے آہ سینہ سے نکل لب پہ مرے آئی ہے میں تو وہ ہوں کہ مرے لاکھ خریدار ہیں اب لیک اس دل سے دھڑکتا ہوں کہ سودائی ...

    مزید پڑھیے

    اے تجلی کیا ہوا شیوہ تری تکرار کا

    اے تجلی کیا ہوا شیوہ تری تکرار کا مر گیا آخر کو یہ طالب ترے دیدار کا کیا بنائے خانۂ عشاق بے بنیاد ہے ڈھل گیا سر سے مرے سایہ تری دیوار کا روز بہ ہوتا نظر آتا نہیں یہ زخم دل دیکھیے کیا ہو خدا حافظ ہے اس بیمار کا نو ملازم لعل لب کو لے گئے تنخواہ میں بے طلب رہتا ہے یہ نوکر تری سرکار ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2