میں کہہ رہا ہوں سر عام برملا بابا
میں کہہ رہا ہوں سر عام برملا بابا گمان ہے بھرے میلے میں کھو گیا بابا کڑی ہے دھوپ تمازت سے پاؤں جلتے ہیں جو سائبان سروں پر تھا کیا ہوا بابا ذرا سی بات پہ آنکھیں برسنے لگتی ہیں کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں گا حوصلہ بابا تمہارے بعد تو لمحے نہیں گزرتے ہیں ابھی تو عمر کا باقی ہے مرحلہ ...