Ashok Mizaj Badr

اشوک مزاج بدر

اشوک مزاج بدر کی غزل

    غزل میں درد کے احساس کو جگائے بغیر

    غزل میں درد کے احساس کو جگائے بغیر ہنر میں آتا نہیں دل پہ چوٹ کھائے بغیر تلاش کرتا ہوا پھر رہا ہوں برسوں سے کہاں گیا مرا بچپن مجھے بتائے بغیر نہ جانے کون سی دنیا میں لوگ جیتے ہیں خیال و خواب کی دنیا کوئی بسائے بغیر کئی ستارے بڑے بد نصیب ہوتے ہیں وہ ڈوب جاتے ہیں پلکوں پہ ...

    مزید پڑھیے

    ہم لوگ اپنی راہ کی دیوار ہو گئے

    ہم لوگ اپنی راہ کی دیوار ہو گئے یعنی کہ مصلحت میں گرفتار ہو گئے اب تو بلند اور ذرا حوصلہ کرو پتھر جو میل کے تھے وہ دیوار ہو گئے طوفاں میں ہم کو چھوڑ کے جانے کا شکریہ اب اپنے ہاتھ پاؤں ہی پتوار ہو گئے گھر کو گرانے والے سیاسی مزاج تھے غم میں شریک ہو کے وہ غم خوار ہو گئے پردے کی ...

    مزید پڑھیے

    کتنی سچائی کس خبر میں ہے

    کتنی سچائی کس خبر میں ہے یہ تو اخبار کی نظر میں ہے گھر میں رہنا تمہیں نہیں آتا ورنہ سارا سکون گھر میں ہے آسماں ایک سا ہے سب کے لئے فرق تیری مری نظر میں ہے زہر اتنا تو سانپ میں بھی نہیں زہر جتنا تمہارے ڈر میں ہے ہر قدم پر بھلے ہوں مے خانہ ایک مسجد بھی رہ گزر میں ہے میں جو چاہوں ...

    مزید پڑھیے

    زندگی تھام لیا کرتے ہیں بڑھ کر لمحے

    زندگی تھام لیا کرتے ہیں بڑھ کر لمحے وقت آنے پہ بدلتے ہیں مقدر لمحے آ بھی جا تجھ کو بلاتے ہیں یہ کہہ کر لمحے پھر نہ آئیں گے بہاروں کے معطر لمحے ہر گھڑی ایک سا موسم بھی کہاں رہتا ہے ہیں کہیں پھول سے کومل کہیں پتھر لمحے سب میں یاری ہیں یہاں دوستی یاری سکھ دکھ کس نے دیکھے ہیں یہاں ...

    مزید پڑھیے

    وصل کی تو کبھی فرقت کی غزل لکھتے ہیں

    وصل کی تو کبھی فرقت کی غزل لکھتے ہیں ہم تو شاعر ہیں محبت کی غزل لکھتے ہیں پڑھیے ان کو کسی کاغذ پہ نہیں سرحد پر اپنے خوں سے جو شہادت کی غزل لکھتے ہیں رہنما اپنے وطن کے بھی ہیں کتنے شاطر وہ شہادت پہ سیاست کی غزل لکھتے ہیں تم نے مزدور کے چھالے نہیں دیکھے شاید اپنے ہاتھوں پہ وہ محنت ...

    مزید پڑھیے

    کیا خبر تھی رنجشیں ہی درمیاں رہ جائیں گی

    کیا خبر تھی رنجشیں ہی درمیاں رہ جائیں گی ہم گلے ملتے رہیں گے دوریاں رہ جائیں گی یہ نگر بھی کارخانوں کا نگر ہو جائے گا ان درختوں کی جگہ کچھ چمنیاں رہ جائیں گی دھیرے دھیرے شور سناٹوں میں گم ہو جائے گا اور سڑکوں پر چمکتی بتیاں رہ جائیں گی رات جس دم اپنے کمبل میں چھپا لے گی ...

    مزید پڑھیے

    مجھ پر عنایتیں ہیں کئی صاحبان کی

    مجھ پر عنایتیں ہیں کئی صاحبان کی کچھ ہیں زمین والوں کی کچھ آسمان کی اپنے سفر کا تنہا مسافر نہیں ہوں میں عزت جڑی ہے مجھ سے مرے خاندان کی وہ مجھ کو آزما کے کڑی دھوپ میں رہا مجھ کو خزاں بہار لگی امتحان کی خسروؔ امیر کی یا برہمن کی ہو غزل محتاج کب رہی ہے کسی بھی زبان کی ہندی کی ...

    مزید پڑھیے