Ashk Amritsari

اشک امرتسری

  • 1900 - 1956

اشک امرتسری کی غزل

    کشمکش میں ہیں تری زلفوں کے زندانی ہنوز

    کشمکش میں ہیں تری زلفوں کے زندانی ہنوز تیرگی پیہم ہے خم در خم پریشانی ہنوز رکھتے ہیں ہم مقصد تعمیر نو پیش نظر گرچہ ہیں منجملۂ اسباب ویرانی ہنوز سطح دریا پر سکوں سا ہے مگر اے سطح بیں قعر و دریا میں وہی موجیں ہیں طوفانی ہنوز اب جنوں میں بھی نہیں آتا ہے صحرا کا خیال شہر حکمت میں ...

    مزید پڑھیے

    یہ کشتیٔ حیات یہ طوفان حادثات (ردیف .. ی)

    یہ کشتیٔ حیات یہ طوفان حادثات مجھ کو تو کچھ خبر نہ رہی آر پار کی ہے گردش زمانہ میں دو رنگیٔ حیات امید کی سحر ہے تو شب انتظار کی یہ دیر یہ حرم یہ کلیسا یہ سومنات تعریف کیا ہو قدرت پروردگار کی ہے کون جو اٹھا سکے بار غم حیات ہم نے بھی گر قبائے خرد تار تار کی اللہ رے تصادم حالات و ...

    مزید پڑھیے

    قید ہستی میں ہوں اپنے فرض کی تعمیل تک

    قید ہستی میں ہوں اپنے فرض کی تعمیل تک اک نئی دنیا نئے انسان کی تشکیل تک دام ہم رنگ زمیں پھیلا دیا صیاد نے وادیٔ گنگ و جمن سے رود بار نیل تک آنکھ سے بہہ جائے گا دل میں اگر باقی رہا قطرۂ خوں داستان درد کی تکمیل تک شاعری کا ساز ہے وہ ساز ہو جس ساز میں نغمۂ روح الامیں سے بانگ اسرافیل ...

    مزید پڑھیے