Ashique Akbarabadi

عاشق اکبرآبادی

  • 1848 - 1918

عاشق اکبرآبادی کی غزل

    نہ مانا میرا کہنا دل گیا کیوں داد خواہی کو

    نہ مانا میرا کہنا دل گیا کیوں داد خواہی کو سزا دیتے ہیں واں مجرم بنا کر بے گناہی کو ہماری بے کسی نے چھان ڈالا ہے جہاں سارا سوا تیرے ٹھکانا ہی نہیں ہے بے پناہی کو قیامت میں وہ مجھ کو دیکھ کر کہتے ہیں غیروں سے خدا کی شان ہے عاشق چلے ہیں داد خواہی کو اڑائی خاک اس کی خوب جا کر کوہ و ...

    مزید پڑھیے

    کہتے ہیں اب ہے شوق ملاقات کا مجھے

    کہتے ہیں اب ہے شوق ملاقات کا مجھے جب حوصلہ رہا ہی نہیں بات کا مجھے سمجھا یہ میں کہ دل کو مرے پھیرتا ہے یہ باسی جب اس نے پان رہا بات کا مجھے دن رات دیکھتا ہوں حسینوں کے تذکرے رہتا ہے شوق اپنی حکایات کا مجھے آتی ہیں یاد یار کے کانوں کی بجلیاں موسم نہ جینے دے گا کہ برسات کا ...

    مزید پڑھیے

    جو دل میں خون تمنا کیا نہ کرتے ہم

    جو دل میں خون تمنا کیا نہ کرتے ہم تو مثل شعلہ بھڑک کر جلا نہ کرتے ہم اگر نہ کشمکش وحشت جنوں ہوتی تو چاک جیب و گریباں کیا نہ کرتے ہم اگر نہ خاطر صیاد پر گراں ہوتے تو یوں تڑپ کے قفس سے اڑا نہ کرتے ہم امید نقش پہ آنے کی تیرے گر ہوتی تو اپنے جینے کی ہرگز دعا نہ کرتے ہم نہ ہوتے تیرے ...

    مزید پڑھیے

    تجھ کو کس منہ سے بے وفا کہئے

    تجھ کو کس منہ سے بے وفا کہئے کوئی پوچھے سبب تو کیا کہئے ہم سے کچھ وقت پر نہ بن آئی لے گئے دل وہ مفت کیا کہئے مجھ کو سمجھا کے گالیاں دیجے فقرہ فقرہ جدا جدا کہئے نہ میں عاشق نہ آپ کو کیا ہوں غیر سے اپنا مدعا کہئے جان دیتا ہوں کس خوشی سے میں آج تو آپ مرحبا کہئے آئنہ میں دکھا کے ...

    مزید پڑھیے

    رہی ان کی چین جبیں دیر تک

    رہی ان کی چین جبیں دیر تک چڑھایا کئے آستیں دیر تک اڑاتی رہی خاکساروں کی خاک تمہاری گلی کی زمیں دیر تک کسی کے جو آنے کی امید تھی رہی لب پہ جان حزیں دیر تک رہی دیکھ کر نقشۂ کوئے یار تحیر میں خلد بریں دیر تک وہ نیرنگیاں میرے رونے میں تھیں کہ ہنستے رہے سب حسیں دیر تک

    مزید پڑھیے

    لگائے بیٹھے ہیں مہندی جو میرے خوں سے پوروں میں

    لگائے بیٹھے ہیں مہندی جو میرے خوں سے پوروں میں یہی تو رہزنوں میں ہیں یہی ہیں دل کے چوروں میں پڑے رہتے ہیں اکثر سوئے مشکیں روئے جاناں پر بہت دیکھا ہے ہم نے اتفاق ان کالے گوروں میں لگائی آگ ان کے حسن عالم سوز نے ہر سو جلانے چو لکھا بیٹھے ہیں یوں کورے سکوروں میں وفور صحبت اغیار سے ...

    مزید پڑھیے

    وہ وہاں غیر کو مہمان کئے بیٹھے ہیں

    وہ وہاں غیر کو مہمان کئے بیٹھے ہیں ہم یہاں عیش کا سامان کئے بیٹھے ہیں زہر کھا لیں گے شب وعدہ نہ آؤ گے اگر اپنی مشکل کو ہم آسان کئے بیٹھے ہیں کل شب وصل تھی سب عیش میسر تھے ہمیں آج ہم چاک گریبان کئے بیٹھے ہیں عشق پردے میں رہے کب تلک اے جوش جنوں ہم بھی طوفان کا سامان کئے بیٹھے ...

    مزید پڑھیے

    گردش دوراں سے یہاں کس کو فراغ آیا ہے ہاتھ

    گردش دوراں سے یہاں کس کو فراغ آیا ہے ہاتھ ہاں مگر آیا تو اک حسرت کا داغ آیا ہے ہاتھ نوحہ سنجی کی بھی مہلت عندلیبوں میں نہیں باغباں قسمت سے کیا ہے بے دماغ آیا ہے ہاتھ عمر گزری جستجوے کوچۂ دلدار میں وائے ناکامی پس از مردن سراغ آیا ہے ہاتھ دل کے داغوں نے کیا ہم کو چمن سے بے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2