Ashfaq Nasir

اشفاق ناصر

اشفاق ناصر کی غزل

    میں سیکھتا رہا اک عمر ہاؤ ہو کرنا

    میں سیکھتا رہا اک عمر ہاؤ ہو کرنا یوں ہی نہیں مجھے آیا یہ گفتگو کرنا ابھی طلب نے جھمیلوں میں ڈال رکھا ہے ابھی تو سیکھنا ہے تیری آرزو کرنا ہمیں چراغوں سے ڈر کر یہ رات بیت گئی ہمارا ذکر سر شام کو بہ کو کرنا بھلا یہ کس نے کہا تھا حیات بخش ہے یہ عشق کبھی ملے تو اسے مرے رو بہ رو ...

    مزید پڑھیے

    رنج جو دیدۂ نمناک میں دیکھا گیا ہے

    رنج جو دیدۂ نمناک میں دیکھا گیا ہے یہ فقط سینۂ صد چاک میں دیکھا گیا ہے اس سے آگے ہے میاں منتظروں کی بستی اک دیا جلتا ہوا طاق میں دیکھا گیا ہے اے جنوں اس کی کہانی بھی سناؤں گا تجھے یہ جو پیوند مرے چاک میں دیکھا گیا ہے یعنی اک آنکھ ابھی ڈھونڈھتی پھرتی ہے مجھے یعنی اک تیر مری تاک ...

    مزید پڑھیے

    طائروں کی اڑان میں ہم ہیں

    طائروں کی اڑان میں ہم ہیں اس کھلے آسمان میں ہم ہیں آخر کار ہجر ختم ہوا اور پس ماندگان میں ہم ہیں کیوں نہ ہو خوف انہدام دل اسی خستہ مکان میں ہم ہیں ہم فقط تیری گفتگو میں نہیں ہر سخن ہر زبان میں ہم ہیں اور کوئی نظر نہیں آتا اس زمین آسمان میں ہم ہیں کیا دعا کی قبولیت اشفاقؔ سب کے ...

    مزید پڑھیے

    پیلا تھا چاند اور شجر بے لباس تھے

    پیلا تھا چاند اور شجر بے لباس تھے تجھ سے بچھڑ کے گاؤں میں سارے اداس تھے سوچا تو تو مگن تھا فقط میری ذات میں دیکھا تو کتنے لوگ ترے آس پاس تھے جب ہم نہ مل سکے تو ہمیں ماننا پڑا بستی کے لوگ کتنے ستارہ شناس تھے دل اس پہ مطمئن تھا کہ ہم ایک ہو گئے لیکن کئی گماں مری سوچوں کے پاس تھے وہ ...

    مزید پڑھیے

    عجب طرح کے کمال کرنے بھی آ گئے ہیں

    عجب طرح کے کمال کرنے بھی آ گئے ہیں بچھڑ کے اب ماہ و سال کرنے بھی آ گئے ہیں جو میری باتوں کو مانتا تھا بلا تأمل سنو اسے اب سوال کرنے بھی آ گئے ہیں سنا ہے لوگوں سے اب وہ ملتا ہے مسکرا کر اسے تعلق بحال کرنے بھی آ گئے ہیں وہ شخص جس کی خوشی کا باعث تھیں میری باتیں اسے اب ان پر ملال ...

    مزید پڑھیے

    اگر خوشی میں تجھے گنگناتے لگتے ہیں

    اگر خوشی میں تجھے گنگناتے لگتے ہیں تو لوگ شہر سے آنسو بہانے لگتے ہیں نکل کے آنکھ سے لفظوں میں آنے لگتے ہیں ہیں میاں یہ اشک ہیں یونہی ٹھکانے لگتے ہیں گزر چکے ہیں کسی عکس کی معیت میں ہم ایسے لوگ جو آئینہ خانے لگتے ہیں تو کرنے لگتے ہیں غسل تلاش مصرع نو ہم اپنے آپ کو جب بھی پرانے ...

    مزید پڑھیے

    دل کسی خواہش کا اکسایا ہوا

    دل کسی خواہش کا اکسایا ہوا پھر مچل اٹھا ہے بہلایا ہوا جا تجھے تیرے حوالے کر دیا کھینچ لے یہ ہاتھ پھیلایا ہوا جس طرح ہے خشک پتوں کو ہوا میرے حصے میں ہے تو آیا ہوا یہ بگولے ہیں کہ استقبال قیس پھر رہا ہے دشت گھبرایا ہوا بزم میں بس اک رخ روشن کے فیض جو جہاں موجود تھا سایا ہوا کیا ...

    مزید پڑھیے

    یہ لوگ ڈھونڈ رہے ہیں یہاں وہاں مجھ کو

    یہ لوگ ڈھونڈ رہے ہیں یہاں وہاں مجھ کو تلاش کرتے نہیں اپنے درمیاں مجھ کو میں اگلے پچھلے زمانوں سے ہو کے آیا ہوں کہیں نظر نہیں آئے ہیں رفتگاں مجھ کو وہ جس میں لوٹ کے آتی تھی ایک شہزادی ابھی تلک نہیں بھولی وہ داستاں مجھ کو یہ کس نے کر دیا صیقل زمیں کا آئینہ تہ زمیں نظر آتا ہے آسماں ...

    مزید پڑھیے

    یاد رکھے گا مرا کون فسانہ مرے دوست

    یاد رکھے گا مرا کون فسانہ مرے دوست میں نہ مجنوں ہوں نہ مجنوں کا زمانہ مرے دوست ہجر انساں کے خد و خال بدل دیتا ہے کبھی فرصت میں مجھے دیکھنے آنا مرے دوست شام ڈھلنے سے فقط شام نہیں ڈھلتی ہے عمر ڈھل جاتی ہے جلدی پلٹ آنا مرے دوست روز کچھ لوگ مرے شہر میں مر جاتے ہیں عین ممکن ہے ٹھہر ...

    مزید پڑھیے

    عکس کو پھول بنانے میں گزر جاتی ہے

    عکس کو پھول بنانے میں گزر جاتی ہے زندگی آئنہ خانے میں گزر جاتی ہے شام ہوتی ہے تو لگتا ہے کوئی روٹھ گیا اور شب اس کو منانے میں گزر جاتی ہے ہر محبت کے لیے دل میں الگ خانہ ہے ہر محبت اسی خانے میں گزر جاتی ہے زندگی بوجھ بتاتا تھا بتانے والا یہ تو بس ایک بہانے میں گزر جاتی ہے تو بتا ...

    مزید پڑھیے