درس خودی
شبنم کا ایک قطرہ بے بہرۂ خودی تھا ٹپکا فلک سے شب کو اور برگ گل پہ ٹھہرا اس طرح تھا چمکتا ہیرے کا جیسے ٹکڑا کرتا تھا کھیل اس سے موج صبا کا جھونکا رنگیں ہوا تھا وہ بھی جس طرح ہر کلی تھی ملتی تھیں جب بھی شاخیں رہ رہ کے تھا سنبھلتا لیتا تھا برگ گل پر دھیرے سے پھر سہارا رنگ چمن تھا ...