Asghar Abid

اصغر عابد

  • 1952

اصغر عابد کی غزل

    کچھ بھی کہو سب اپنی اناؤں پہ اڑے ہیں

    کچھ بھی کہو سب اپنی اناؤں پہ اڑے ہیں سب لوگ یہاں صورت اصنام کھڑے ہیں جو پار اترتا گیا ہوتا گیا کم تر ہم دورئ منزل کے طفیل آج بڑے ہیں ہم کو نہ کہو قانع حالات کہ ہم لوگ زندانیٔ دہلیز کے منصب پہ کھڑے ہیں اے وصل نصیبو! ہمیں مڑ کر بھی نہ دیکھا ہم قفل کے مانند مصائب پہ پڑے ہیں تاریخ ...

    مزید پڑھیے

    سیم تن گل رخوں کی بستی ہے

    سیم تن گل رخوں کی بستی ہے یہ بدلتی رتوں کی بستی ہے کون سمجھے سکوت کی باتیں شہر خاموشیوں کی بستی ہے یہ لکیریں غموں کے رستے ہیں یہ ہتھیلی دکھوں کی بستی ہے زندگی تک زکوٰۃ ٹھہرا دی یہ میرے رازقوں کی بستی ہے آسماں کی طرح ہے ساتھ کوئی ہجر بھی قربتوں کی بستی ہے وہ تلاطم شعار کیا ...

    مزید پڑھیے

    بات بے بات الجھتے ہو بھلا بات ہے کیا

    بات بے بات الجھتے ہو بھلا بات ہے کیا میرے اندر کی بلاؤں سے ملاقات ہے کیا ہم تو اس پستئ احساس پہ جیتے ہیں جہاں یہ بھی معلوم نہیں جیت ہے کیا مات ہے کیا دھند میں ڈوب گیا دل کا محدب عدسہ کون بتلائے سر ارض و سموات ہے کیا درد کا غار حرا دل میں کیا ہے تعمیر مجھ کو معلوم نہیں طرز عبادات ...

    مزید پڑھیے