Asar Sahbai

اثر صہبائی

  • 1901 - 1963

معروف شاعر، رومان اور سماجی شعورکی حامل نظمیں، غزلیں اور رباعیاں کہیں

Well-known poet; wrote ghazals, nazms and rubais prortraying romantic feelings and acute social consciousness

اثر صہبائی کے تمام مواد

5 غزل (Ghazal)

    تمہاری فرقت میں میری آنکھوں سے خوں کے آنسو ٹپک رہے ہیں

    تمہاری فرقت میں میری آنکھوں سے خوں کے آنسو ٹپک رہے ہیں سپہر الفت کے ہیں ستارے کہ شام غم میں چمک رہے ہیں عجیب ہے سوز و ساز الفت طرب فزا ہے گداز الفت یہ دل میں شعلے بھڑک رہے ہیں کہ لالہ و گل مہک رہے ہیں بہار ہے یا شراب رنگیں نشاط افروز کیف آگیں گلوں کے ساغر چھلک رہے ہیں گلوں پہ بلبل ...

    مزید پڑھیے

    مری ہر سانس کو سب نغمۂ محفل سمجھتے ہیں

    مری ہر سانس کو سب نغمۂ محفل سمجھتے ہیں مگر اہل دل آواز شکست دل سمجھتے ہیں گماں کاشانۂ رنگیں کا ہے جس پر نگاہوں کو اسے اہل نظر گرد رہ منزل سمجھتے ہیں الٰہی کشتئ دل بہہ رہی ہے کس سمندر میں نکل آتی ہیں موجیں ہم جسے ساحل سمجھتے ہیں طرب انگیز ہیں رنگینیاں فصل بہاری کی مگر بلبل ...

    مزید پڑھیے

    لطف گناہ میں ملا اور نہ مزہ ثواب میں

    لطف گناہ میں ملا اور نہ مزہ ثواب میں عمر تمام کٹ گئی کاوش احتساب میں تیرے شباب نے کیا مجھ کو جنوں سے آشنا میرے جنوں نے بھر دیے رنگ تری شباب میں آہ یہ دل کہ جاں گداز جوشش اضطراب ہے ہائے وہ دور جب کبھی لطف تھا اضطراب میں قلب تڑپ تڑپ اٹھا روح لرز لرز گئی بجلیاں تھیں بھری ہوئی زمزمۂ ...

    مزید پڑھیے

    ظلمت دشت عدم میں بھی اگر جاؤں گا

    ظلمت دشت عدم میں بھی اگر جاؤں گا لے کے ہمراہ مہ داغ جگر جاؤں گا عارض گل ہوں نہ میں دیدۂ بلبل گلچیں ایک جھونکا ہوں فقط سن سے گزر جاؤں گا اے فنا ٹوٹ سکے گی نہ کبھی کشتی عمر میں کسی اور سمندر میں اتر جاؤں گا دیکھ جی بھر کے مگر توڑ نہ مجھ کو گلچیں ہاتھ بھی تو نے لگایا تو بکھر جاؤں ...

    مزید پڑھیے

    تمہاری یاد میں دنیا کو ہوں بھلائے ہوئے

    تمہاری یاد میں دنیا کو ہوں بھلائے ہوئے تمہارے درد کو سینے سے ہوں لگائے ہوئے عجیب سوز سے لبریز ہیں مرے نغمے کہ ساز دل ہے محبت کی چوٹ کھائے ہوئے جو تجھ سے کچھ بھی نہ ملنے پہ خوش ہیں اے ساقی کچھ ایسے رند بھی ہیں مے کدے میں آئے ہوئے تمہارے ایک تبسم نے دل کو لوٹ لیا رہے لبوں پہ ہی ...

    مزید پڑھیے

1 نظم (Nazm)

    رموز محبت

    1 جب آنکھ کھول کے دیکھا تو ہو گیا مستور یہ میرا دیدۂ بینا ہی اک حجاب ہوا تو چھپ گیا مہ و انجم میں لالہ و گل میں ہر ایک جلوۂ رنگیں ترا نقاب ہوا جب آنکھ بند ہوئی تو ہی جلوہ آرا تھا 2 مری زبان کھلی شرح عاشقی کے لیے مرا بیاں تھا مرقع مری خجالت کا ہر ایک حرف میں تھا غیریت کا افسانہ مری ...

    مزید پڑھیے