Arshad Siddiqui

ارشد صدیقی

سیماب اکبر آبادی کے شاگر، مشاعروں میں بھی مقبول رہے

A disciple of Seemab akbaradbadi, also popular in mushairas

ارشد صدیقی کی غزل

    قلب و نظر کا سکوں اور کہاں دوستو

    قلب و نظر کا سکوں اور کہاں دوستو کوئے بتاں دوستو کوئے بتاں دوستو میرا ہی دل ہے کہ میں پھرتا ہوں یوں خندہ زن کم نہیں پردیس میں دل کا زیاں دوستو جن میں خلوص وفا اور نہ شعور ستم مجھ کو بٹھایا ہے یہ لا کے کہاں دوستو چار گھڑی رات ہے آؤ کہ ہنس بول لیں جانے سحر تک ہو پھر کون کہاں ...

    مزید پڑھیے

    ترے بغیر گل و نسترن پہ کیا گزری

    ترے بغیر گل و نسترن پہ کیا گزری نہ پوچھ اب کے بہار چمن پہ کیا گزری مآل جرأت‌ منصور کچھ سہی لیکن سوال یہ ہے کہ دار و رسن پہ کیا گزری ہمیں تو ہیں کہ جو برق و شرر سے کھیلے ہیں ہمیں سے پوچھ رہے ہو چمن پہ کیا گزری قفس میں آج یہ کیسے چراغ روشن ہیں الٰہی خیر نہ جانے چمن پہ کیا گزری پہنچ ...

    مزید پڑھیے

    وہ جس نے میرے دل و جاں میں درد بویا ہے

    وہ جس نے میرے دل و جاں میں درد بویا ہے کبھی کبھی مری حالت پہ خود بھی رویا ہے بڑھے ہوئے تھے مری سمت کتنے پیار کے ہاتھ کہاں یہ لا کے تری یاد نے ڈبویا ہے جو پھوٹی پلکوں سے کونپل تو جا کے راز کھلا کہ اس نے غم نہیں سینے میں زہر بویا ہے تمہیں بتاؤ کہ کس کس سے میں کلام کروں ہو تم بھی گویا ...

    مزید پڑھیے

    کتنے ساقی مع گلفام لئے پھرتے ہیں

    کتنے ساقی مع گلفام لئے پھرتے ہیں اور ہم ہیں کہ تہی جام لئے پھرتے ہیں عمر گزری کے تبسم کی طرح ہونٹوں پر تلخئ گردش ایام لئے پھرتے ہیں تذکرے ہیں یہ چمن میں کہ سبھی لالہ و گل نکہت عارض گلفام لئے پھرتے ہیں شرم اے حسن جفا پیشہ کہ کوچے میں ترے آج تک ہم دل ناکام لئے پھرتے ہیں جانے کیا ...

    مزید پڑھیے

    نہ پیام چاہتے ہیں نہ کلام چاہتے ہیں

    نہ پیام چاہتے ہیں نہ کلام چاہتے ہیں مری رات کے اندھیرے ترا نام چاہتے ہیں جو جگر کو خاک کر دے جو دماغ پھونک ڈالے مرے پیاسے ہونٹ ایسا کوئی جام چاہتے ہیں وہ ہو شغل بادہ نوشی کہ طواف کوئے جاناں غم زندگی کے مارے کوئی کام چاہتے ہیں ہمیں مٹ کے بھی یہ حسرت کہ بھٹکتے اس گلی میں وہ ہیں ...

    مزید پڑھیے

    انقلاب سحر و شام کی کچھ بات کرو

    انقلاب سحر و شام کی کچھ بات کرو دوستو گردش ایام کی کچھ بات کرو جام و مینا تو کہیں اور سے لے آئیں گے مے کشو ساقیٔ گلفام کی کچھ بات کرو غیر کی صبح درخشاں کا تصور کب تک اپنی کجلائی ہوئی شام کی کچھ بات کرو پھر جلانا مہ و خورشید کی محفل میں چراغ پہلے اپنے ہی در و بام کی کچھ بات ...

    مزید پڑھیے

    فضائیں کیف بہاراں سے جب مہکتی ہیں

    فضائیں کیف بہاراں سے جب مہکتی ہیں تو دل میں چوٹیں تری یاد کی کسکتی ہیں شفق کے رنگ بھی ان کا جواب لا نہ سکے کسی کے چہرے پہ جو سرخیاں دمکتی ہیں جنہیں تمہارا تبسم ملا ہے وہ نظریں فضا میں نور کے نغمے بکھیر سکتی ہیں کبھی کبھی تو ستاروں کے نرم سائے میں کسی کے جسم کی پرچھائیاں چمکتی ...

    مزید پڑھیے

    حسن معصوم اگر راز نہاں تک پہنچے

    حسن معصوم اگر راز نہاں تک پہنچے غم کا معیار خدا جانے کہاں تک پہنچے عشق میں یوں تو سبھی سود و زیاں تک پہنچے کم ہیں ایسے جو مرے عزم جواں تک پہنچے ہم پہنچنے کو تو ہر وہم و گماں تک پہنچے تم وہاں ہو کہ نظر بھی نہ جہاں تک پہنچے وہ مصیبت جسے دنیا غم دل کہتی ہے میں نہ روکوں تو خدا جانے ...

    مزید پڑھیے

    یوں تو بہت حسیں ہے بہار چمن کی یاد

    یوں تو بہت حسیں ہے بہار چمن کی یاد دل پر مگر ہے نقش اسی انجمن کی یاد ہم خود غم حیات سے سینہ فگار ہیں اے دوستو دلاؤ نہ اس گل بدن کی یاد اس انتہائے تلخیٔ دوراں کے باوجود تازہ ہے آج بھی کسی شیریں دہن کی یاد پھر جی میں ہے کہ کھائیے کوئی نیا فریب پھر آ رہی ہے اک بت وعدہ شکن کی ...

    مزید پڑھیے

    ستم کے مارے لہو میں ڈوبے ہوئے نظاروں کا کیا کروں گا

    ستم کے مارے لہو میں ڈوبے ہوئے نظاروں کا کیا کروں گا سسکتے غنچو تمہیں بتاؤ میں ان بہاروں کا کیا کروں گا جنہیں بھروسہ ہو آسماں پر وہ آسماں سے پناہ مانگیں میں اپنے ذروں سے مطمئن ہوں میں چاند تاروں کا کیا کروں گا اگر مجھے دے سکے زمانہ تو کچھ نئے زخم اور دے دے میں غمگساروں کو جانتا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2