Arshad Kakvi

ارشد کاکوی

ارشد کاکوی کی غزل

    ان کی فطرت اس کو کہئے یا کہ فطرت کا اصول

    ان کی فطرت اس کو کہئے یا کہ فطرت کا اصول ڈوب جاتے ہیں ستارے اور بکھر جاتے ہیں پھول اک نظر کی کیا حقیقت ہے مگر اے دوستو عمر بھر کی موت بن جاتی ہے اک لمحے کی بھول ہم تو ہیں ان محفلوں کے آج تک مارے ہوئے جن میں نغموں کی ہے شورش جن میں زلفوں کی ہے دھول اور جو کچھ بھی ہے ان کے درمیاں وہ ...

    مزید پڑھیے

    پھر چند دنوں سے وہ ہر شب خوابوں میں ہمارے آتے ہیں

    پھر چند دنوں سے وہ ہر شب خوابوں میں ہمارے آتے ہیں پھر راہ گزار دل پر کچھ قدموں کے نشاں ہم پاتے ہیں کچھ رات گئے کچھ رات رہے ہم اکثر اشک بہاتے ہیں کیا جانے آگ لگاتے ہیں یا دل کی آگ بجھاتے ہیں اے دل اے خوشیوں کے مدفن اے میرے غموں کے تاج محل لے خوش ہو تیری زیارت کو احساس کے مارے آتے ...

    مزید پڑھیے

    جینا ہے ایک شغل سو کرتے رہے ہیں ہم

    جینا ہے ایک شغل سو کرتے رہے ہیں ہم ہے زندگی گواہ کہ مرتے رہے ہیں ہم سہتے رہے ہیں ظلم ہم اہل زمین کے الزام آسمان پہ دھرتے رہے ہیں ہم ملتے رہے ہیں راز ہمیں اہل زہد کے ناز اپنے شغل جام پہ کرتے رہے ہیں ہم احباب کی نگاہ پہ چڑھتے رہے مگر اغیار کے دلوں میں اترتے رہے ہیں ہم جیسے کہ ان ...

    مزید پڑھیے