ارشد جمال حشمی کی غزل

    خواب کیا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں

    خواب کیا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں اک نشہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں اس نے کیا کیا ستم نہ توڑے ہیں دل مرا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں ٹوٹتا جا رہا ہے اک اک خواب سلسلہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں رشتے ناطے تمام ٹوٹ گئے سر پھرا ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں پو پھٹی انگ انگ ٹوٹتا ہے اور نشہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں لہریں آ آ ...

    مزید پڑھیے

    سپیدی رنگ جہاں میں نہیں ملاتا ہوں

    سپیدی رنگ جہاں میں نہیں ملاتا ہوں حقیقتوں کو گماں میں نہیں ملاتا ہوں سرشک غم رگ جاں میں نہیں ملاتا ہوں میں زہر آب رواں میں نہیں ملاتا ہوں جو کہہ دیا کہ ترا ہوں تو صرف تیرا ہوں میں جھوٹ اپنے بیاں میں نہیں ملاتا ہوں تمام شہر تری ہاں میں ہاں ملاتا ہے اکیلا میں تری ہاں میں نہیں ...

    مزید پڑھیے

    کچھ درجہ اور گرمئ بازار ہو بلند

    کچھ درجہ اور گرمئ بازار ہو بلند دل بیچئے کہ ذوق خریدار ہو بلند باب قبول بند ہے دست طلب پر اب رب چاہتا ہے پائے طلب گار ہو بلند جھک جائے گا سبو بھی کوئی جام تو اٹھائے دانہ ہے منتظر کوئی منقار ہو بلند دیکھی تھی جس نے پیاس وہ پانی تو بہہ چکا امکاں نہیں کہ پرچم انکار ہو بلند ناخون ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں میں خواب رکھ دئے تعبیر چھین لی

    آنکھوں میں خواب رکھ دئے تعبیر چھین لی اس نے خطاب بخش کے جاگیر چھین لی غم یہ نہیں کہ بخت نے برباد کر دیا غم ہے تو یہ کہ خواہش تعمیر چھین لی دستار مصلحت تو یوں بھی سر پہ بوجھ تھی اچھا کیا کہ تم نے یہ توقیر چھین لی یہ کس کی بد دعا کی ہے تاثیر یا خدا جس نے مری دعاؤں سے تاثیر چھین ...

    مزید پڑھیے

    اس کا انجام بھلا ہو کہ برا ہو کچھ ہو

    اس کا انجام بھلا ہو کہ برا ہو کچھ ہو اب رعایا ہمیں رہنا نہیں شاہو کچھ ہو زخم کا ایک سا یہ رنگ نہیں بھاتا ہے اب تو یہ ٹھیک ہو یا اور ہرا ہو کچھ ہو بند یادوں کے حوالات میں کب تک رہوں میں یا میں ہو جاؤں بری یا تو سزا ہو کچھ ہو جسم کہتا ہے کہ اب جاں سے گزر ہی جاؤ دل یہ کہتا ہے کہ یہ ...

    مزید پڑھیے