عارف امام کی غزل

    نفس کی آمد و شد کو وبال کر کے بھی

    نفس کی آمد و شد کو وبال کر کے بھی وہ خوش نہیں ہے ہمارا یہ حال کر کے بھی عجب تھا نشۂ وارفتگیٔ وصل اسے وہ تازہ دم رہا مجھ کو نڈھال کر کے بھی ہمیں عزیز ہمیشہ رہی ہے نسبت خاک یہ سر جھکا رہا کسب کمال کر کے بھی لو ہم نہ کہتے تھے ہم کو نہیں امید جواب لو ہم نے دیکھ لیا ہے سوال کر کے بھی یہ ...

    مزید پڑھیے

    کچھ ایسے زخم زمانہ کا اندمال کیا

    کچھ ایسے زخم زمانہ کا اندمال کیا کبھی نماز پڑھی اور کبھی دھمال کیا لگائی ضرب شدید اپنے دل پہ مستی میں خدا سے ٹوٹا ہوا رابطہ بحال کیا اسی کی بات لکھی چاہے کم لکھی ہم نے اسی کا ذکر کیا چاہے خال خال کیا لو ہم نے ڈھال لیا خود کو اس کے پیکر میں لو ہم نے ہجر کے عرصے کو بھی وصال ...

    مزید پڑھیے

    حالت حرف کس نے جانی ہے

    حالت حرف کس نے جانی ہے یہ جہاں خوگر معانی ہے کیا لگے قیمت قبائے سخن یہ نئی ہو کے بھی پرانی ہے ایک دنیا تھی، جس کے ملبے سے ایک دنیا مجھے بنانی ہے راہ میں ہے بدن کی اک دیوار جو مجھے ناخنوں سے ڈھانی ہے یہ جہاں رقص میں نہیں یونہی سب مرے خون کی روانی ہے اور کچھ دن ہے یہ فریب ...

    مزید پڑھیے

    اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں

    اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں اس گلی میں بکھر رہا ہوں میں جتنا جتنا جھکا رہا ہوں سر اتنا اتنا ابھر رہا ہوں میں اک صحیفہ ہوں آسمانوں کا اور زمیں پر اتر رہا ہوں میں گردش وقت روکنی ہے مجھے اس لیے رقص کر رہا ہوں میں قیس کے بھی قدم نہیں ہیں جہاں اس جگہ سے گزر رہا ہوں میں پوچھ لو مجھ سے ...

    مزید پڑھیے

    سب لہو جم گیا ابال کے بیچ

    سب لہو جم گیا ابال کے بیچ کون یاد آ گیا وصال کے بیچ ایک وقفہ ہے زندگی بھر کا زخم کے اور اندمال کے بیچ آن بیٹھا ہے ایک اندیشہ گفتگو اور عرض حال کے بیچ تال دیتی ہے جب کبھی وحشت رقص کرتا ہوں میں خیال کے بیچ کبھی ماتم میان رقص کیا کبھی سجدہ کیا دھمال کے بیچ ایک پردہ ہے بے ثباتی ...

    مزید پڑھیے

    اس گلی سے مرے گزرنے تک

    اس گلی سے مرے گزرنے تک سب تماشا ہے میرے مرنے تک تو مری جان رقص میں رہیو گردش کن فکاں ٹھہرنے تک وسوسوں سے بھرا ہوا تھا دل اس کی چوکھٹ پہ سر کو دھرنے تک کتنے صحرا اتر گئے مجھ میں اک سبو آرزو کا بھرنے تک کتنے عالم گزر گئے مجھ پر رقص کرنے سے سجدہ کرنے تک خون کتنا بہا تھا مقتل ...

    مزید پڑھیے

    زخم سب اس کو دکھا کر رقص کر

    زخم سب اس کو دکھا کر رقص کر ایڑیوں تک خوں بہا کر رقص کر جامۂ خاکی پہ مشت خاک ڈال خود کو مٹی میں ملا کر رقص کر اس عبادت کی نہیں کوئی قضا سر کو سجدے سے اٹھا کر رقص کر دور ہٹ جا سایۂ محراب سے دھوپ میں خود کو جلا کر رقص کر بھول جا سب کچھ مگر تصویر یار اپنے سینے سے لگا کر رقص کر توڑ دے ...

    مزید پڑھیے

    سبو میں عکس رخ ماہتاب دیکھتے ہیں

    سبو میں عکس رخ ماہتاب دیکھتے ہیں شراب پیتے نہیں ہم شراب دیکھتے ہیں کسی بھی طور اٹھے پر تری نگاہ اٹھے جلا کے گھر تجھے خانہ خراب دیکھتے ہیں اسے نہ دیکھ سکیں گے اے کاش انہیں دیکھیں وہ کون ہیں جو اسے بے نقاب دیکھتے ہیں ہمارے چہرے پہ لکھا گیا فسانۂ وقت ہم آئینہ نہیں تکتے کتاب ...

    مزید پڑھیے

    فصیل ذات سے باہر بھی دیکھنا ہے مجھے

    فصیل ذات سے باہر بھی دیکھنا ہے مجھے شکست خواب کا منظر بھی دیکھنا ہے مجھے ابھی تو میں نے فقط بارشوں کو جھیلا ہے اب اس کے بعد سمندر بھی دیکھنا ہے مجھے بنا رہا ہوں ابھی گھر کو آئنہ خانہ پھر اپنے ہاتھ میں پتھر بھی دیکھنا ہے مجھے سپاہ کار جہاں سے نمٹ چکا ہوں مگر تمہاری یاد کا لشکر ...

    مزید پڑھیے

    شاعری مجھ کو عجب حال میں لے جاتی ہے

    شاعری مجھ کو عجب حال میں لے جاتی ہے کبھی ماتم کبھی دھمال میں لے جاتی ہے میں کسی چشم نگہ دار کی حد میں ہوں کہ جو مجھ کو واپس مرے احوال میں لے جاتی ہے میری خواہش بڑی تفصیل طلب ہے لیکن تیری صورت مجھے اجمال میں لے جاتی ہے میں بچھاتا ہوں مصلیٰ سر محراب نیاز پھر عبادت مجھے پاتال میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2