نفس نفس زندگی کے ہو کر اجل کی تشہیر کر رہے ہیں
نفس نفس زندگی کے ہو کر اجل کی تشہیر کر رہے ہیں یہ کس جتن میں لگے ہیں ہم سب کسے جہانگیر کر رہے ہیں کہاں پتہ تھا تری شفق ہی پس غبار زوال ہوگی تجھی کو مسمار کر دیا تھا تری ہی تعمیر کر رہے ہیں رہ شہادت پہ سر کے ہم راہ اک آسیب چل رہا ہے ہمیں نہ نکلیں یزید دوراں کہ خود کو شبیر کر رہے ...