Anwari Jahan Begum Hijab

انوری جہاں بیگم حجاب

  • 1865 - 1937

انوری جہاں بیگم حجاب کی غزل

    محیط رحمت ہے جوش افزا ہوئی ہے ابر سخا کی آمد

    محیط رحمت ہے جوش افزا ہوئی ہے ابر سخا کی آمد خدا کی ہر چیز کہہ رہی ہے کہ اب ہے نور خدا کی آمد فلک کو ہے آرزو کہ جھک کر میں اپنے تارے کروں نچھاور ہوئی ہے مکہ کی سر زمیں پہ یہ آج کس مہ لقا کی آمد ہر اک محب پر یہ فضل رب ہے اثر کو نالوں کی خود طلب ہے مگر اس الطاف کا سبب ہے حبیب رب العلا ...

    مزید پڑھیے

    سارے کشتوں سے جدا ڈھنگ اضطراب دل کا ہے

    سارے کشتوں سے جدا ڈھنگ اضطراب دل کا ہے کیوں نہ ہو بسمل بھی تو کس چلبلے قاتل کا ہے چھپ نہیں سکتا وہ خون اپنے دل بسمل کا ہے مٹ نہیں سکتا جو دھبہ دامن قاتل کا ہے امتحاں مد نظر کس منچلے بسمل کا ہے معرکہ آرا جو یوں ہر ناز اس قاتل کا ہے بے اجازت اٹھ کے سینہ سے لگائے آپ کو حوصلہ اتنا بھی ...

    مزید پڑھیے

    مزہ دیتا ہے یاد آ کر ترا بسمل بنا دینا

    مزہ دیتا ہے یاد آ کر ترا بسمل بنا دینا لگا دینا ذرا تیر نظر ہاں پھر لگا دینا وہ میرا بے خودی میں اس کے منہ سے منہ ملا دینا قیامت ایک چپ کا پھر وہ دونوں کو سزا دینا ادائے شرم ہو خلوت میں یا انداز شوخی کے ترے ہر ناز پر ہم کو تو جاں اے دل ربا دینا ہمارا آرزوئے بوسہ کرنا تجھ سے در ...

    مزید پڑھیے

    کہاں ممکن ہے پوشیدہ غم دل کا اثر ہونا

    کہاں ممکن ہے پوشیدہ غم دل کا اثر ہونا لبوں کا خشک ہو جانا بھی ہے آنکھوں کا تر ہونا غضب مل کر جدا مجھ سے ترا او فتنہ گر ہونا ستم نالوں کا پر تاثیر ہو کر بے اثر ہونا جگر میں درد لب پر نالۂ وحشت اثر ہونا عیاں کرتا ہے اک رشک پری کا دل میں گھر ہونا غضب نالہ کشی اک صاحب عصمت کے کوچہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ مقتل میں اگر کھینچے ہوئے تلوار بیٹھے ہیں

    وہ مقتل میں اگر کھینچے ہوئے تلوار بیٹھے ہیں تو ہم بھی جان دینے کے لئے تیار بیٹھے ہیں در پیر مغاں پر اس طرح مے خوار بیٹھے ہیں کہ کچھ مخمور بیٹھے ہیں تو کچھ سرشار بیٹھے ہیں اگر وہ گالیاں دینے پر آمادہ ہیں خلوت میں تو ہم بھی عرض مطلب کے لیے تیار بیٹھے ہیں گلا میں کاٹ لوں خود اک ...

    مزید پڑھیے

    کھینچ کر تلوار جب ترک ستم گر رہ گیا

    کھینچ کر تلوار جب ترک ستم گر رہ گیا ہائے رے شوق شہادت میں تڑپ کر رہ گیا ملتے ملتے رہ گئی آنکھ اس کی چشم مست سے ہوتے ہوتے لب بہ لب ساغر سے ساغر رہ گیا آپ ہی سے بے خبر کوئی رہا وعدہ کی شب کیا خبر کس کی بغل میں کب وہ دلبر رہ گیا لے لیا میں نے کنارہ شوق میں یوں دفعتاً شوخیاں بھولا وہ ...

    مزید پڑھیے

    آنا بھی آنے والے کا افسانہ ہو گیا

    آنا بھی آنے والے کا افسانہ ہو گیا دشمن کے کہنے سننے سے کیا کیا نہ ہو گیا کیا فیضیاب صحبت رندانہ ہو گیا دم بھر میں شیخ ساقیٔ مے خانہ ہو گیا سنتے ہیں بند پھر در مے خانہ ہو گیا دور ایاغ‌ و شغل مل افسانہ ہو گیا ملنے کے بعد بیٹھ رہا پھیر کر نگاہ ظالم یگانہ ہوتے ہی بیگانہ ہو ...

    مزید پڑھیے