Anjum Tarazi

انجم ترازی

انجم ترازی کی غزل

    ہر گھر کے مکینوں نے ہی در کھولے ہوئے تھے

    ہر گھر کے مکینوں نے ہی در کھولے ہوئے تھے سامان بندھا رکھا تھا پر کھولے ہوئے تھے کیا کرتے جو دو چار قدم تھا لب دریا جب حوصلے ہی رخت سفر کھولے ہوئے تھے اک اس کے بچھڑنے کا قلق سب کو ہوا تھا سر سبز درختوں نے بھی سر کھولے ہوئے تھے سچائی کی خوشبو کی رمق تک نہ تھی ان میں وہ لوگ جو بازار ...

    مزید پڑھیے

    لمحہ لمحہ اپنی زہریلی باتوں سے ڈستا تھا

    لمحہ لمحہ اپنی زہریلی باتوں سے ڈستا تھا وہ میرا دشمن ہو کر بھی میرے گھر میں بستا تھا باپ مرا تو بچے روٹی کے ٹکڑے کو ترس گئے ایک تنے سے کتنی شاخوں کا جیون وابستہ تھا افواہوں کے دھوئیں نے کوشش کی ہے کالک ملنے کی وہ بکنے کی شے ہوتا تو ہر قیمت پر سستا تھا اک منظر میں پیڑ تھے جن پر ...

    مزید پڑھیے