ہر گھر کے مکینوں نے ہی در کھولے ہوئے تھے
ہر گھر کے مکینوں نے ہی در کھولے ہوئے تھے سامان بندھا رکھا تھا پر کھولے ہوئے تھے کیا کرتے جو دو چار قدم تھا لب دریا جب حوصلے ہی رخت سفر کھولے ہوئے تھے اک اس کے بچھڑنے کا قلق سب کو ہوا تھا سر سبز درختوں نے بھی سر کھولے ہوئے تھے سچائی کی خوشبو کی رمق تک نہ تھی ان میں وہ لوگ جو بازار ...