Anjum Rumani

انجم رومانی

پاکستانی شاعر، اقبال کے منتخب فارسی کلام کا منظوم ترجمہ بھی کیا

Pakistani poet, translator of select Persian poetry of Iqbal

انجم رومانی کے تمام مواد

15 غزل (Ghazal)

    یہاں تو پھر وہی دیوار و در نکل آئے

    یہاں تو پھر وہی دیوار و در نکل آئے کدھر کو یار چلے تھے کدھر نکل آئے کہاں کا پائے وفا اور کہاں کا دشت طلب کہ اب تو رستے کئی مختصر نکل آئے ہوا رفیق نہ بیگار شوق میں کوئی مقام زر پہ کئی معتبر نکل آئے گریز کرتے ہیں سائے سے بھی مرے احباب کہیں ادھر بھی نہ یہ آشفتہ سر نکل آئے ہوا نہ کوئی ...

    مزید پڑھیے

    جہاں تک گیا کاروان خیال

    جہاں تک گیا کاروان خیال نہ تھا کچھ بجز حسرت پائمال مجھے تیرا تجھ کو ہے میرا خیال مگر زندگی پھر بھی ہے خستہ حال جہاں تک ہے دیر و حرم کا سوال رہیں چپ تو مشکل کہیں تو محال تری کائنات ایک حیرت کدہ شناسا مگر اجنبی خد و خال مری کائنات ایک زخم کہن مقدر میں جس کے نہیں اندمال نئی ...

    مزید پڑھیے

    ہے جو تاثیر سی فغاں میں ابھی

    ہے جو تاثیر سی فغاں میں ابھی لوگ باقی ہیں کچھ جہاں میں ابھی دل سے اٹھتا ہے صبح و شام دھواں کوئی رہتا ہے اس مکاں میں ابھی ساتھ ہے ایک عمر کا لیکن کشمکش سی ہے جسم و جاں میں ابھی مر نہ رہیے تو اور کیا کیجے جان ہے جسم ناتواں میں ابھی اور کچھ دن خراب ہو لیجے سود اپنا ہے اس زیاں میں ...

    مزید پڑھیے

    جب بھی کوئی بات کی آنسو ڈھلکے ساتھ

    جب بھی کوئی بات کی آنسو ڈھلکے ساتھ ہم بھی پاگل ہو گئے من پاگل کے ساتھ رات کو کالی چاندنی دن کو کالی دھوپ ڈھونڈیں آنکھیں روشنی رہیں دھندلکے ساتھ ماریں ٹامک ٹوئیے اندھیارے میں لوگ تارے سارے بجھ گئے دل کے کنول کے ساتھ آج ہے من میں رن پڑا آج کی رکھو لاج جھوٹی کل کی دوستی جھوٹے کل ...

    مزید پڑھیے

    نہیں نام و نشاں سائے کا لیکن یار بیٹھے ہیں

    نہیں نام و نشاں سائے کا لیکن یار بیٹھے ہیں اگے شاید زمیں سے خود بہ خود دیوار بیٹھے ہیں سوار کشتی امواج دل ہیں اور غافل ہیں سمجھتے ہیں کہ ہم دریائے غم کے پار بیٹھے ہیں اجاڑ ایسی نہ تھی دنیا ابھی کل تک یہ عالم تھا یہاں دو چار بیٹھے ہیں وہاں دو چار بیٹھے ہیں پھر آتی ہے اسی صحرا سے ...

    مزید پڑھیے

تمام

1 نظم (Nazm)

    گزر رہے ہیں گزرنے والے

    لرزنے والے لرز رہے ہیں لرزتے جھونکے گزرتے بل کھاتے رینگتے سرسراتے جھونکے نسائی ملبوس کی طرح سرسرانے والے کڑکنے والی کی چابکوں سے اگرچہ دور رواں کے آنسو ٹپک رہے ہیں مگر نظر جس طرف بھی اٹھتی ہے دیکھتی ہے گزر رہے ہیں گزرنے والے یہ کون دبکا ہوا اس آوارہ راستے میں کھڑا ہوا ہے کہ جیسے ...

    مزید پڑھیے