دھوپ چھاؤں ذہنوں کا آسرا نہیں رکھتے
دھوپ چھاؤں ذہنوں کا آسرا نہیں رکھتے ہم غرض کے بندوں سے واسطہ نہیں رکھتے زعم پارسائی میں کب خیال ہے ان کو طنز تو وہ کرتے ہیں آئنہ نہیں رکھتے سازشیں علامت تو پست ہمتی کی ہیں سازشیں جو کرتے ہیں حوصلہ نہیں رکھتے وہ غرور تقویٰ میں بس یہی سمجھتے ہیں جیسے ہے خدا ان کا ہم خدا نہیں ...