Anjum Azimabadi

انجم عظیم آبادی

انجم عظیم آبادی کی غزل

    دھوپ چھاؤں ذہنوں کا آسرا نہیں رکھتے

    دھوپ چھاؤں ذہنوں کا آسرا نہیں رکھتے ہم غرض کے بندوں سے واسطہ نہیں رکھتے زعم پارسائی میں کب خیال ہے ان کو طنز تو وہ کرتے ہیں آئنہ نہیں رکھتے سازشیں علامت تو پست ہمتی کی ہیں سازشیں جو کرتے ہیں حوصلہ نہیں رکھتے وہ غرور تقویٰ میں بس یہی سمجھتے ہیں جیسے ہے خدا ان کا ہم خدا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    حور و غلماں کے طلب گار سے واقف میں ہوں

    حور و غلماں کے طلب گار سے واقف میں ہوں صاحب جبہ و دستار سے واقف میں ہوں شہر میں آپ فرشتوں سے بھی بڑھ کر ٹھہرے ہاں مگر آپ کے کردار سے واقف میں ہوں حق نوائی کا سمجھتا ہوں اسے میں انعام قید و زنداں رسن و دار سے واقف میں ہوں وہ ہے مجبور طلب سے بھی سوا دینے پر خوبیٔ جرأت اظہار سے واقف ...

    مزید پڑھیے

    اپنی جیب تھی خالی خالی کرتے کیا

    اپنی جیب تھی خالی خالی کرتے کیا خوش پوشی کی لاج نبھا لی کرتے کیا کرنا تھا کچھ کام جناب عالی کو ہم ٹھہرے رتبوں سے خالی کرتے کیا خود کو سمجھا سب سے بڑھ کر کار گزار تھی یہ اپنی خام خیالی کرتے کیا تم تو سایہ دار شجر تھے بانٹتے چھاؤں ہم ٹھہرے اک سوکھی ڈالی کرتے کیا ذرہ ہو کر جان لیا ...

    مزید پڑھیے