Anjana Sandhir

انجنا سندھیر

  • 1960

انجنا سندھیر کی غزل

    تیر برسے کبھی خنجر آئے

    تیر برسے کبھی خنجر آئے یہ مقامات بھی اکثر آئے شہر میں آگ لگی ہے اپنے جو بھی آئے وہ سنبھل کر آئے پھر تباہی کی طرف ہے دنیا پھر ضرورت ہے پیمبر آئے وہ تو رہزن کے بھی رہزن نکلے ہم تو سمجھے تھے کہ رہبر آئے شہر میں جب کوئی ہنگامہ ہوا لوگ کچھ بھیس بدل کر آئے آپ چپ رہے کے بھلے بن ...

    مزید پڑھیے

    وہ روٹھتا ہے کبھی دل دکھا بھی دیتا ہے

    وہ روٹھتا ہے کبھی دل دکھا بھی دیتا ہے میں گر پڑوں تو مجھے حوصلہ بھی دیتا ہے وہ میری راہ میں پتھر کی طرح رہتا ہے وہ میری راہ سے پتھر ہٹا بھی دیتا ہے بہت خلوص جھلکتا ہے طنز میں اس کے وہ مجھ پہ طنز کے نشتر چلا بھی دیتا ہے میں خود کو بھول نہ جاؤں بھٹک نہ جاؤں کہیں وہ مجھ کو آئنہ لا کر ...

    مزید پڑھیے

    مدت سے کوئی ان کی تحریر نہیں ملتی

    مدت سے کوئی ان کی تحریر نہیں ملتی کچھ دل کے بہلنے کی تدبیر نہیں ملتی ہر اک کو نہیں ہوتا عرفان محبت کا ہر اک کو محبت کی جاگیر نہیں ملتی بچوں کو تو اس طرح جلتے نہیں دیکھا تھا تاریخ میں کچھ ایسی تحریر نہیں ملتی پنجاب کو دیکھو تو اک آگ کا دریا ہے کشمیر میں جنت کی تصویر نہیں ملتی اس ...

    مزید پڑھیے