Ambar Bahraichi

عنبر بہرائچی

معروف سنسکرت عالم، ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ

Well-known Sanskrit scholar, Sahitya Academy award winner.

عنبر بہرائچی کے تمام مواد

18 غزل (Ghazal)

    دروازہ وا کر کے روز نکلتا تھا

    دروازہ وا کر کے روز نکلتا تھا صرف وہی اپنے گھر کا سرمایہ تھا کھڑے ہوئے تھے پیڑ جڑوں سے کٹ کر بھی تیز ہوا کا جھونکا آنے والا تھا اسی ندی میں اس کے بچے ڈوب گئے اسی ندی کا پانی اس کا پینا تھا سبز قبائیں روز لٹاتا تھا لیکن خود اس کے تن پر بوسیدہ کپڑا تھا باہر سارے میداں جیت چکا تھا ...

    مزید پڑھیے

    ہنستے ہوئے چہرے میں کوئی شام چھپی تھی

    ہنستے ہوئے چہرے میں کوئی شام چھپی تھی خوش لہجہ تخاطب کی کھنک نیم چڑھی تھی جلووں کی انا توڑ گئی ایک ہی پل میں کچنار سی بجلی میرے سینے میں اڑی تھی پیتا رہا دریا کے تموج کو شناور ہونٹوں پہ ندی کے بھی عجب تشنہ لبی تھی خوش رنگ معانی کے تعاقب میں رہا میں خط لب لعلیں کی ہر اک موج خفی ...

    مزید پڑھیے

    وہ لمحہ مجھ کو ششدر کر گیا تھا

    وہ لمحہ مجھ کو ششدر کر گیا تھا مرے اندر بھی لاوا بھر گیا تھا ہے دونوں سمت ویرانی کا عالم اسی رستے سے وہ لشکر گیا تھا گزاری تھی بھنور میں اس نے لیکن وہ مانجھی ساحلوں سے ڈر گیا تھا قلندر مطمئن تھا جھونپڑے میں عبث اس کے لیے محضر گیا تھا نہ جانے کیسی آہٹ تھی فضا میں وہ دن ڈھلتے ہی ...

    مزید پڑھیے

    گردش کا اک لمحہ یوں بیباک ہوا

    گردش کا اک لمحہ یوں بیباک ہوا سونے چاندی کا ہر منظر خاک ہوا نہر کنارے ایک سمندر پیاسا ہے ڈھلتے ہوئے سورج کا سینہ چاک ہوا اک شفاف طبیعت والا صحرائی شہر میں رہ کر کس درجہ چالاک ہوا شب اجلی دستاریں کیا سر گرم ہوئیں بھور سمے سارا منظر نمناک ہوا وہ تو اجالوں جیسا تھا اس کی ...

    مزید پڑھیے

    میں اپنی وسعتوں کو اس گلی میں بھول جاتا ہوں

    میں اپنی وسعتوں کو اس گلی میں بھول جاتا ہوں نہ جانے کون سے جادو کے ہاتھوں میں کھلونا ہوں سفر یہ پانیوں کا جب مجھے بے آب کرتا ہے میں دریا کی روپہلی ریت کو بستر بناتا ہوں سوالوں کے کئی پتھر اٹھائے لوگ بیٹھے ہیں میں اپنا ننھا بچہ قبر میں دفنا کے لوٹا ہوں نہ جانے کس فضا میں کھو گیا ...

    مزید پڑھیے

تمام

10 نظم (Nazm)

    یدھشٹھر

    ابھی چیڑ کے جنگلوں سے گزرنا بہت جاں فزا ہے کئی میل کے بعد برفیلے تودوں کا صحرا ملے گا جہاں سرد پروائیوں کے تھپیڑے تھرکتے ملیں گے عمودی ڈھلانوں کا اک سلسلہ بھی ملے گا اچانک جسے پار کرنے کی دھن میں تمہیں اپنے سب ساتھیوں کو گلانا پڑے گا حسیں دروپدی اور تمہارے جری بھائیوں کی ...

    مزید پڑھیے

    سوکھی ٹہنی پر ہریل

    ہم چشموں کے غول مگن ہیں شاخوں پر خوش رفتار ہوائیں پنکھے جھلتی ہیں گولر کے کچے پھل بھی ہر جانب ہیں میٹھے پانی والی جھیل ہے پہلو میں موسم کی شطرنجی چالیں عنقا ہیں کوئی شکاری بھی اس سمت نہیں آتا ہرے بھرے جنگل کی مشفق بانہوں میں رات گئے جانے کیا برسا ہے دل پر الگ تھلگ برگد کی سوکھی ...

    مزید پڑھیے

    دھنک

    ایک کتا جھاڑیوں میں لا وارث نو مولود بچے کی حفاظت کر رہا تھا ایک ماں اپنے ننھے بچے کے گال پر کاجل کا ٹیکہ لگا رہی تھی ایک معصوم بچے کی انگلی پکڑ کر ایک بوڑھا اور نا بینا شخص سڑک پار کر رہا تھا رامش و رنگ میں ڈوبی ہوئی برات میں ہنڈیوں کو اپنے سروں پر مزدور اٹھائے ہوئے تھے میری ...

    مزید پڑھیے

    گلابی چونچ

    گلابی چونچ میں کیڑے لیے اڑتی ہے گوریا جدھر اک آشیاں میں اس کے بچوں نے ابھی آنکھیں نہیں کھولیں مگر ہیں بھوک سے بے کل مچھیرے صبح کی دھندھلی رداؤں میں پرانے چھپروں کی کوکھ سے شانوں پہ رکھ کر جال نکلے ہیں وہیں پر کھانستے ہیں چند محنت کش الاؤ کے کنارے بیڑیاں پی کر فلک پیما عمارت کے ...

    مزید پڑھیے

    انبساط ازلی

    اونچی نیچی دوب پر لہراتا ہوا کالا ناگ جھیل کے بانہوں سے پھوٹتا ہوا جوالامکھی رنگ برنگے پنچھی کو پنجوں میں دبائے ہوئے باز چٹانوں کے پیچھے مردہ جانور کی صاف و شفاف ٹھٹھری پر بھاگتے ہوئے سیاہ چوہوں کی قطار چاندنی رات میں مچھلی پر جھپٹتا ہوا اودبلاؤ پتنگے کو پکڑنے کے لیے لپکتی ...

    مزید پڑھیے

تمام