ہر ایک لفظ ہے زندہ علامتوں سے تری
ہر ایک لفظ ہے زندہ علامتوں سے تری مری غزل کی یہ قامت نزاکتوں سے تری ترے بغیر تو بے سمت تھی مسافت عمر مرا سفر ہوا آساں رفاقتوں سے تری اب اس میں تیری مری خامشی ہی بہتر ہے کہ بات پھیل گئی ہے وضاحتوں سے تری مرے رفیق مرے اس قدر خلاف نہ تھے یہ اختلاف بڑھا ہے حمایتوں سے تری تری طلب کے ...