Alimullah Hali

علیم اللہ حالی

علیم اللہ حالی کی غزل

    بچ بچا کر جسم سے بھاگا کوئی

    بچ بچا کر جسم سے بھاگا کوئی گرتی دیواروں کی زد میں تھا کوئی اس قدر دست رسائی سے گریز ہم نہ ساحل ہیں نہ تم دریا کوئی لوٹ آتے دشت تنہائی سے ہم شہر میں آواز تو دیتا کوئی سارے دن سگریٹ کے مرغولوں میں بند رات بھر خوابوں کا قیدی تھا کوئی میرے دریا تو شناور کو نہ بھول دیکھ تو تہہ میں ...

    مزید پڑھیے

    نا شناسی کا ہمیشہ غم رہا

    نا شناسی کا ہمیشہ غم رہا آئنہ بھی اپنا نامحرم رہا آگ ہے اس پر ہے یہ بے شعلگی اپنے جلنے کا عجب عالم رہا سارے اونچے گھر ہوا کی زد میں تھے میرا ملبہ تھا جو مستحکم رہا میں بھی سیل آرزو میں بہہ گیا وہ بھی غرق گرمیٔ شبنم رہا ہم گرے بھی تو انا کے غار میں ٹوٹتے پر بھی وہی دم خم رہا اب ...

    مزید پڑھیے

    صداؤں کے جنگل میں وہ خامشی ہے

    صداؤں کے جنگل میں وہ خامشی ہے کہ میں نے ہر آواز تیری سنی ہے اداسی کے آنگن میں تیری طلب کی عجب خوشنما اک کلی کھل رہی ہے نیا رنگ تھا اس کا کل وقت رخصت کہ جیسے کسی بات پر برہمی ہے اسے دے کے سب کچھ میں یہ سوچتا ہوں اسے اور کیا دوں ابھی کچھ کمی ہے وہی لمحہ لمحہ لہکنا ابھی تک ابھی تک ...

    مزید پڑھیے

    جدا کیا تو بہت ہی ہنسی خوشی اس نے

    جدا کیا تو بہت ہی ہنسی خوشی اس نے بدل دیا ہے اب انداز بے رخی اس نے وہ رنگ رنگ اڑا خوشبوؤں میں پھیل گیا جھٹک دیا ہے مرا دامن تہی اس نے جسے سنا کے مجھے خوف سر زنش سا رہا اسی کلام پہ بڑھ چڑھ کے داد دی اس نے وہ میرے ساتھ شروع سفر چلا تھا مگر ہجوم شہر میں لی راہ اور ہی اس نے ہوا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    سفر ہے ذہن کا تو کوئی رہنما لے جا

    سفر ہے ذہن کا تو کوئی رہنما لے جا مرا سکوت نہ ہو تو مری صدا لے جا ہر ایک سمت ہے دشت سکوت کی وسعت بچا کے یہ روش عرض مدعا لے جا میں زیر سنگ اسی تیرگی میں جی لوں گا تو اپنی نرم شعاعوں کا قافلہ لے جا کچھ اور چاٹ لے صحرائے گمرہی کا نمک جو آ گیا ہے تو راہوں کا ذائقہ لے جا بکھر کے چھوٹ نہ ...

    مزید پڑھیے

    بادلوں کے بیچ تھا میں بے سر و ساماں نہ تھا

    بادلوں کے بیچ تھا میں بے سر و ساماں نہ تھا تشنگی کا زہر پی لینا کوئی آساں نہ تھا کیا قیامت خیز تھا دریا میں موجوں کا ہجوم ساحلوں تک آتے آتے پھر کہیں طوفاں نہ تھا جانے کتنی دور اس کی لہر مجھ کو لے گئی میں سمجھتا تھا کہ وہ دریائے بے پایاں نہ تھا ہر طرف پت جھڑ کی آوازوں کی چادر تن ...

    مزید پڑھیے

    یوں ابتلائے بار دگر کا پتہ چلا

    یوں ابتلائے بار دگر کا پتہ چلا منزل پہ جا کے اگلے سفر کا پتہ چلا ہم محفل حیات میں شب بھر جلا کئے جب شمع گل ہوئی تو سحر کا پتہ چلا ہر سانس اس کے قدموں کی آہٹ سے نغمہ ریز ہر آن اس کی راہ گزر کا پتہ چلا مقتل میں بھی سبھوں سے الگ اپنی آن تھی دستار سے ہی لوگوں کو سر کا پتہ چلا صحرائے ...

    مزید پڑھیے

    ہے غم ہجر نہ اب ذوق طلب کچھ بھی نہیں

    ہے غم ہجر نہ اب ذوق طلب کچھ بھی نہیں آج تم لوٹ کے آئے ہو کہ جب کچھ بھی نہیں تیرے ٹھکرانے کی نسبت سے ہوئے ہیں مشہور ہم فقیروں کا یہاں نام و نسب کچھ بھی نہیں آج یہ بار ملاقات اٹھے گا کیوں کر اس سے ملنا ہے پہ ملنے کا سبب کچھ بھی نہیں ایک آواز نے توڑی ہے خموشی میری ڈھونڈھتا ہوں تو پس ...

    مزید پڑھیے

    اس کا غم اپنی طلب چھین کے لے جائے گا

    اس کا غم اپنی طلب چھین کے لے جائے گا درد بن کر مری رگ رگ میں اتر آئے گا ریگزاروں سے پرے کھینچ رہا ہے کوئی جانے کس دشت میں دریا مجھے بھٹکائے گا بھول جاؤں گا میں جب اپنی نواؤں کی کسک اس کی آنکھوں میں لہو میرا اتر آئے گا کوئی پتھر کا نشاں رکھ کے جدا ہوں ہم تم جانے یہ پیڑ کس آندھی میں ...

    مزید پڑھیے