Ali Zubair

علی زبیر

علی زبیر کی غزل

    کس طرح جاؤں کہ یہ آئے ہوئے رات میں ہیں

    کس طرح جاؤں کہ یہ آئے ہوئے رات میں ہیں یہ اندھیرے نہیں ہیں سائے مری گھات میں ہیں ملتا رہتا ہوں میں ان سے تو یہ مل لیتے ہیں یار اب دل میں نہیں رہتے ملاقات میں ہیں یہ تو ناکام اثاثہ ہے سمندر کے پاس کچھ غضب ناک سی لہریں مرے جذبات میں ہیں یہ دھوئیں میں جو نظر آتے ہیں سرسبز یہاں یہ ...

    مزید پڑھیے

    مصلحت کا کوئی خدا ہے یہاں

    مصلحت کا کوئی خدا ہے یہاں کام جو سب کے کر رہا ہے یہاں اور ملتا بھی کیا فقیروں سے صرف اک حوصلہ ملا ہے یہاں لوگ محتاط ہیں رویوں میں قربتوں میں بھی فاصلہ ہے یہاں عادتا پوچھنے لگے ہیں لوگ کیا کوئی حادثہ ہوا ہے یہاں علم تو دفن ہو چکا کب کا کچھ کتابوں کا سلسلہ ہے یہاں روشنی منتقل ...

    مزید پڑھیے