Ali Sarmad

علی سرمد

علی سرمد کی غزل

    جو نفرتوں کا جمال ٹھہرا

    جو نفرتوں کا جمال ٹھہرا محبتوں کا زوال ٹھہرا نہ آنکھ روئی نہ دل پسیجا تمہارا جانا کمال ٹھہرا تمہاری یادیں جہاں بھی ٹھہریں وہیں پہ دل میں ملال ٹھہرا جواب کیونکر دلیل کس کو ہمارے لب پہ سوال ٹھہرا جو ہم نے سوچا تھا عشق ہوگا فقط ہمارا خیال ٹھہرا وہ سن کے چپ ہیں کہانی اپنی یہ ...

    مزید پڑھیے

    دل مضطر مجھے اک بات بتا سکتا ہے

    دل مضطر مجھے اک بات بتا سکتا ہے تو کسی طور مجھے چھوڑ کے جا سکتا ہے یہ تری بھول ہے میں تیرے سبب زندہ ہوں مجھ سا ضدی تو بدن توڑ کے جا سکتا ہے جس نے اس خاک کے انسان کو عزت دی ہے وہی اس خاک کو مٹی میں ملا سکتا ہے تو مرے ساتھ تو ہے پھر بھی مرے ساتھ نہیں اس سے بڑھ کر بھی مجھے کوئی ستا ...

    مزید پڑھیے

    شام کا منظر الجھا رستہ ایک کہانی تو اور میں

    شام کا منظر الجھا رستہ ایک کہانی تو اور میں ڈھلتا سورج بڑھتا سایہ کشتی رانی تو اور میں بند اک کمرہ چپ کا منظر بھولی بسری دیپک یاد تنہائی دکھ خوف کی لذت دلبر جانی تو اور میں تتلی خوشبو رنگ کی باتیں شبنم سے شرمیلے خواب آس کا پنچھی گم سم خواہش رات کی رانی تو اور میں پلکیں چلمن ...

    مزید پڑھیے

    میری ہستیٔ حال ہنستے ہیں

    میری ہستیٔ حال ہنستے ہیں میرے دن ماہ و سال ہنستے ہیں پہلے ہر پل جو لوگ ہنستے تھے وہ بھی اب خال خال ہنستے ہیں اس کی حاضر جواب باتوں سے مجھ پہ میرے سوال ہنستے ہیں دل بھی اس پل بہک سا جاتا ہے جب ستم گر کے گال ہنستے ہیں میرے چھپ چھپ کے دیکھنے پہ وہ اپنے گیسو سنبھال ہنستے ہیں ان کا ...

    مزید پڑھیے