Aleem Saba Navedi

علیم صبا نویدی

معروف شاعر اور ناقد، متعدد اصناف میں شعر گوئی کے لیے جانے جاتے ہیں

Well-known poet and critic, known for writing poems in various genres

علیم صبا نویدی کی غزل

    نازل ہوا تھا شہر میں کالا عذاب ایک

    نازل ہوا تھا شہر میں کالا عذاب ایک غارت گر نصیب تھا خانہ خراب ایک سانسیں سسکتی رہ گئیں دیوار و در کے بیچ برپا ہوا تھا چھت پہ نیا انقلاب ایک میرا سفر تھا جسم کے باہر فلک کی سمت اترا تھا میری قبر پہ جب آفتاب ایک میرے لیے بہت تھی خزاں دیدہ روشنی اس کی پسند لاکھ مرا انتخاب ایک ارض ...

    مزید پڑھیے

    سسکتا چیختا احساس تھا مرے اندر

    سسکتا چیختا احساس تھا مرے اندر کبھی تو جھانک کے وہ دیکھتا مرے اندر کسی کے لمس کی خواہش نہ فاصلوں کی کسک یہ کیسا زہر اچھالا گیا مرے اندر وہ ایک شخص جسے ڈھونڈنا بھی مشکل تھا بڑے خلوص سے رہنے لگا مرے اندر لہو کی سوکھی ہوئی جھیل میں اتر کر یوں تلاش کس کو وہ کرتا رہا مرے اندر یہ ...

    مزید پڑھیے

    ہر موڑ پہ سفر تھا عجب بولنے نہ پائے

    ہر موڑ پہ سفر تھا عجب بولنے نہ پائے منزل ملی جو درد کی لب بولنے نہ پائے لکھوا دئیے ہیں اوروں نے دیوار و در پہ نام اک ہم تھے اپنا نام و نسب بولنے نہ پائے گھر جل رہا تھا سب کے لبوں پر دھواں سا تھا کس کس پہ کیا ہوا تھا غضب بولنے نہ پائے سپنوں کی گرم چادریں اوڑھے ہوئے تھے لوگ اتری تھی ...

    مزید پڑھیے

    خشک آنکھوں سے لہو پھوٹ کے رونا اک دن

    خشک آنکھوں سے لہو پھوٹ کے رونا اک دن ورنہ لے ڈوبے گا مجھ کو مرا ہونا اک دن کیا پتہ تھا تری جلتی ہوئی سانسوں کی قطار میری سانسوں ہی پہ ڈالے گی بچھونا اک دن ایک بھی رنگ کی لو اونچی نہ ہونے پائی ان گنت رنگوں میں جس کو تھا سمونا اک دن میں کبھی ذہن کے زینوں سے اتر آؤں گا لا کے رکھ دے ...

    مزید پڑھیے

    لب کیا کھلے کہ قوت گویائی چھن گئی

    لب کیا کھلے کہ قوت گویائی چھن گئی پیش نگاہ وہ تھے کہ بینائی چھن گئی ہونٹوں پہ دہشتوں کی تھی طغیانی ہر طرف سارے گواہ خشک تھے سچائی چھن گئی اوروں کے نام ہی سہی سب صحبتیں تری تیرے بغیر بھی مری تنہائی چھن گئی ظلم و ستم کی تخت نشینی کے دن جو آئے گھر گھر اداس شہر کی رعنائی چھن ...

    مزید پڑھیے

    میں جس کا منتظر ہوں وہ منظر پکار لے

    میں جس کا منتظر ہوں وہ منظر پکار لے شاید نکل کے جسم سے باہر پکار لے میں لے رہا ہوں جائزہ ہر ایک لہر کا کیا جانے کب یہ مجھ کو سمندر پکار لے صدیوں کے درمیان ہوں میں بھی تو اک صدی اک بار مجھ کو اپنا سمجھ کر پکار لے میں پھر رہا ہوں شہر میں سڑکوں پہ غالباً آواز دے کے مجھ کو مرا گھر ...

    مزید پڑھیے

    بعد مدت کے کھلا جوہر نایاب مرا

    بعد مدت کے کھلا جوہر نایاب مرا جو اندھیرے میں تھا روشن ہوا وہ باب مرا میں زمیں والوں کی آنکھوں میں بھرا ہوں لیکن آسماں والوں نے دیکھا ہے کوئی خواب مرا عطر افشانیٔ قربت سے تھی معمور فضا جذبۂ قطرۂ خوں کب ہوا سیراب مرا کتنے دریاؤں پہ تھا کالی گھٹاؤں کا جلوس ایک اک بوند کا پیاسا ...

    مزید پڑھیے