Akram Naqqash

اکرم نقاش

معاصر شاعروں میں شامل

One of the contemporary poets of note

اکرم نقاش کی غزل

    بہ رنگ خواب میں بکھرا رہوں گا

    بہ رنگ خواب میں بکھرا رہوں گا ترے انکار جب چنتا رہوں گا کبھی سوچا نہیں تھا میں ترے بن یوں زیر آسماں تنہا رہوں گا تو کوئی عکس مجھ میں ڈھونڈنا مت میں شیشہ ہوں فقط شیشہ رہوں گا تعفن زار ہوتی محفلوں میں خیال یار سے مہکا رہوں گا جیوں گا میں تری سانسوں میں جب تک خود اپنی سانس میں ...

    مزید پڑھیے

    دشت کو ڈھونڈنے نکلوں تو جزیرہ نکلے

    دشت کو ڈھونڈنے نکلوں تو جزیرہ نکلے پاؤں رکھوں جو میں ویرانے میں دنیا نکلے ایک بپھرا ہوا دریا ہے مرے چار طرف تو جو چاہے اسی طوفاں سے کنارہ نکلے ایک موسم ہے دل و جاں پہ فقط دن ہو کہ رات آسماں کوئی ہو دل پر وہی تارا نکلے دیکھتا ہوں میں تری راہ میں دام حیرت روشنی رات سے اور دھوپ سے ...

    مزید پڑھیے

    ٹوٹی ہوئی شبیہ کی تسخیر کیا کریں

    ٹوٹی ہوئی شبیہ کی تسخیر کیا کریں بجھتے ہوئے خیال کو زنجیر کیا کریں اندھا سفر ہے زیست کسے چھوڑ دے کہاں الجھا ہوا سا خواب ہے تعبیر کیا کریں سینے میں جذب کتنے سمندر ہوئے مگر آنکھوں پہ اختیار کی تدبیر کیا کریں بس یہ ہوا کہ راستہ چپ چاپ کٹ گیا اتنی سی واردات کی تشہیر کیا کریں ساعت ...

    مزید پڑھیے

    اے ابر التفات ترا اعتبار پھر

    اے ابر التفات ترا اعتبار پھر آنکھوں میں پھر وہ پیاس وہی انتظار پھر رکھوں کہاں پہ پاؤں بڑھاؤں کدھر قدم رخش خیال آج ہے بے اختیار پھر دست جنوں و پنجۂ وحشت چہار سمت بے برگ و بار ہونے لگی ہے بہار پھر پسپائیوں نے گاڑ دیئے دانت پشت پر یوں دامن غرور ہوا تار تار پھر نشتر تری زباں ہی ...

    مزید پڑھیے

    کوئی الزام میرے نام میرے سر نہیں آیا

    کوئی الزام میرے نام میرے سر نہیں آیا وہ جو طوفان اندر تھا مرے باہر نہیں آیا یہ کس کی دید نے آنکھوں کو بھر ڈالا خلا سے یوں کہ پھر آنکھوں میں کوئی دوسرا منظر نہیں آیا جنوں بردار کوئی روئے صحرا پر نہیں دیکھا کنار آب جو پیاسا کوئی لشکر نہیں آیا ہوئی بارش درختوں نے بدن سے گرد سب ...

    مزید پڑھیے

    لہو تیزاب کرنا چاہتا ہے

    لہو تیزاب کرنا چاہتا ہے بدن اک آگ دریا چاہتا ہے میسر سے زیادہ چاہتا ہے سمندر جیسے دریا چاہتا ہے اسے بھی سانس لینے دے کہ ہر دم بدن باہر نکلنا چاہتا ہے مجھے بالکل یہ اندازہ نہیں تھا وہ اب رستہ بدلنا چاہتا ہے نئی زنجیر پھیلائے ہے بانہیں کوئی آزاد ہونا چاہتا ہے رتیں بدلیں نئے ...

    مزید پڑھیے

    حیرت سے دیکھتا ہوا چہرہ کیا مجھے

    حیرت سے دیکھتا ہوا چہرہ کیا مجھے صحرا کیا کبھی کبھی دریا کیا مجھے کچھ تو عنایتیں ہیں مرے کارساز کی اور کچھ مرے مزاج نے تنہا کیا مجھے پتھرا گئی ہے آنکھ بدن بولتا نہیں جانے کس انتظار نے ایسا کیا مجھے تو تو سزا کے خوف سے آزاد تھا مگر میری نگاہ سے کوئی دیکھا کیا مجھے آنکھوں میں ...

    مزید پڑھیے

    میں نہیں ہوں نہیں کہیں بھی نہیں

    میں نہیں ہوں نہیں کہیں بھی نہیں اب کوئی آسمان ہے نہ زمیں ایک دنیا ہوئی ہے زیر نگیں شہ نشیں ہو گیا ہے خاک نشیں یہ سکوں بھی ہوا ملال کے ساتھ وہ بہر طور جی رہا ہے یہیں بارہا تو نے خواب دکھلائے بارہا ہم نے کر لیا ہے یقیں ایک ویرانہ تھا بسا نہ کبھی بستیاں ہم سے گو ہزار بسیں جیسے ...

    مزید پڑھیے

    حیرت کے دفتر جاؤں

    حیرت کے دفتر جاؤں میں اپنے اندر جاؤں آنکھیں چار کروں سب سے آئینے سے ڈر جاؤں دنیا مل ہی جائے گی زینے چند اتر جاؤں ایسا کوئی پل آئے سائے سے باہر جاؤں تجھ کو سوچوں پل بھر میں زنجیروں سے بھر جاؤں جس رستے ہیں خار ببول اس رستے اکثر جاؤں دکھ کے جنگل سے نکلوں تیری راہ گزر جاؤں رات ...

    مزید پڑھیے

    قرار گم شدہ میرے خدا کب آئے گا

    قرار گم شدہ میرے خدا کب آئے گا مری دعاؤں میں رنگ دعا کب آئے گا بدن سے بھرنے لگے ہیں ہم اپنی روح کے گھاؤ ہمیں سلیقۂ دارو دوا کب آئے گا یہیں کہیں سے وہ آواز دے رہا ہے مگر نواح جاں میں مرا نا خدا کب آئے گا غروب ہوتا ہوا روشنی کا سیارہ اندھیرے موسموں میں کیا پتا کب آئے گا سماعتوں کو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2