Akram Mahmud

اکرم محمود

روایت اور جدید شعری نظریات سے ہم آہنگ شعری بیانیے کا شاعر، سنجیدہ ادبی حلقوں میں مقبول

A poet who blended tradition and modernity; popular in serious literary circles

اکرم محمود کی غزل

    زخم دیکھے نہ مرے زخم کی شدت دیکھے

    زخم دیکھے نہ مرے زخم کی شدت دیکھے دیکھنے والا مری آنکھوں کی حیرت دیکھے مجھ پہ آساں ہے کہے لفظ کا ایفا کرنا اس کو مشکل ہے تو وہ اپنی سہولت دیکھے دل لئے جاتا ہے پھر کوئے ملامت کی طرف آنکھ کو چاہئے پھر خواب ہزیمت دیکھے کوئی صورت ہو کہ انکار سے پہلے آ کر کس قدر اس کی یہاں پر ہے ...

    مزید پڑھیے

    نکل رہا ہوں یقیں کی حد سے گماں کی جانب

    نکل رہا ہوں یقیں کی حد سے گماں کی جانب سفر ہے میرا زمین سے آسماں کی جانب منڈیر پر کوئی چشم تر تھی کہ آئنہ تھا ستارۂ شام دیکھتا تھا مکاں کی جانب یہ خواب ہے یا طلسم کوئی کہ خشک پتے کھنچے چلے جا رہے ہیں آب رواں کی جانب کوئی تو اوپر سے بوجھ ڈالا گیا ہے ورنہ جھکا ہوا آسماں ہے کیوں ...

    مزید پڑھیے

    منزل‌ خواب ہے اور محو سفر پانی ہے

    منزل‌ خواب ہے اور محو سفر پانی ہے آنکھ کیا کھولیں کہ تا حد نظر پانی ہے آئنہ ہے تو کوئی عکس کہاں ہے اس میں کیوں بہا کر نہیں لے جاتا اگر پانی ہے ایک خواہش کہ جو صحرائے بدن سے نکلی کھینچتی ہے اسی جانب کو جدھر پانی ہے پاؤں اٹھتے ہیں کسی موج کی جانب لیکن روک لیتا ہے کنارہ کہ ٹھہر ...

    مزید پڑھیے

    چڑھے ہوئے ہیں جو دریا اتر بھی جائیں گے

    چڑھے ہوئے ہیں جو دریا اتر بھی جائیں گے مرے بغیر ترے دن گزر بھی جائیں گے اڑا رہی ہیں ہوائیں پرائے صحنوں میں ڈھلے گی رات تو ہم اپنے گھر بھی جائیں گے جو رو رہی ہے یہی آنکھ ہنس رہی ہوگی ترے دیار میں بار دگر بھی جائیں گے تلاش خود کو کہیں خاک و آب میں کر لیں تمہارے کھوج میں پھر در بدر ...

    مزید پڑھیے

    ستارہ آنکھ میں دل میں گلاب کیا رکھنا

    ستارہ آنکھ میں دل میں گلاب کیا رکھنا کہ ڈھلتی عمر میں رنگ شباب کیا رکھنا جو ریگزار بدن میں غبار اڑتا ہو تو چشم خاک رسیدہ میں خواب کیا رکھنا سفر نصیب ہی ٹھہرا جو دشت غربت کا تو پھر گماں میں فریب سحاب کیا رکھنا جو ڈوب جانا ہے اک دن جزیرۂ دل بھی تو کوئی نقش سر سطح آب کیا رکھنا الٹ ...

    مزید پڑھیے

    اگر ہر چیز میں اس نے اثر رکھا ہوا ہے

    اگر ہر چیز میں اس نے اثر رکھا ہوا ہے تو پھر اب تک مجھے کیوں بے ہنر رکھا ہوا ہے تعلق زندگی سے مختصر رکھا ہوا ہے کہ شانوں پر نہیں نیزے پہ سر رکھا ہوا ہے زمانے سے ابھی تک پوچھتے ہیں اس کی باتیں اسے ہم نے ابھی تک بے خبر رکھا ہوا ہے اب ایسی بے ثمر ساعت میں اس کی یاد کیسی یہ دکھ اچھے ...

    مزید پڑھیے

    اب دل بھی دکھاؤ تو اذیت نہیں ہوتی

    اب دل بھی دکھاؤ تو اذیت نہیں ہوتی حیرت ہے کسی بات پہ حیرت نہیں ہوتی اب درد بھی اک حد سے گزرنے نہیں پاتا اب ہجر میں وہ پہلی سی وحشت نہیں ہوتی ہوتا ہے تو بس ایک ترے ہجر کا شکوہ ورنہ تو ہمیں کوئی شکایت نہیں ہوتی کر دیتا ہے بے ساختہ بانہوں کو کشادہ جب بچ کے نکل جانے کی صورت نہیں ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں میں خواب تازہ ہے دل میں نیا خیال بھی

    آنکھوں میں خواب تازہ ہے دل میں نیا خیال بھی اور جو مہرباں رہے گردش ماہ و سال بھی ملنے کی اہتمام تک ہم ترے منتظر رہے اب تو نہیں رہا مگر ملنے کا احتمال بھی وقت کہاں رکا بھلا پر یہ کسے گمان تھا عمر کی زد میں آئے گا تجھ سا پری جمال بھی اس نے دیئے تھے پھول جو اب اسے کیا دکھائیے رکھتا ...

    مزید پڑھیے

    یوں ہی رکھوگے امتحاں میں کیا

    یوں ہی رکھوگے امتحاں میں کیا نہیں آئے گی جان جاں میں کیا کیوں صدا کا نہیں جواب آتا کوئی رہتا نہیں مکاں میں کیا اک زمانہ ہے روبرو میرے تم نہ آؤ گے درمیاں میں کیا وہ جو قصے دلوں کے اندر ہیں وہ بھی لاؤ گے درمیاں میں کیا کس قدر تلخیاں ہیں لہجے میں زہر بوتے ہو تم زباں میں کیا دل کو ...

    مزید پڑھیے

    کوئی ہنر تو مری چشم اشکبار میں ہے

    کوئی ہنر تو مری چشم اشکبار میں ہے کہ آج بھی وہ کسی خواب کے خمار میں ہے کسی بہار کا منظر ہے چشم ویراں میں کسی گلاب کی خوشبو دل فگار میں ہے عجب تقاضا ہے مجھ سے جدا نہ ہونے کا کہ جیسے کون و مکاں میرے اختیار میں ہے نشان راہ بھی ٹھہرے گا بارشوں کے بعد ابھی یہ نقش کسی راہ کے غبار میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2