پڑ گئی جیسے عقل پر مٹی
پڑ گئی جیسے عقل پر مٹی خاک منزل ہے رہ گزر مٹی موڑ سکتے ہیں گیلی ہونے تک ٹوٹ جاتی ہے سوکھ کر مٹی بے ضمیری جفا کشی نفرت نام بدلے ہوئے ہے ہر مٹی پھر بھی ظالم کی پیاس باقی ہے ہو چکی ہے لہو میں تر مٹی آؤ تازہ مصالحت کر لیں پچھلی باتوں پہ ڈال کر مٹی جتنے فرمان تھے بزرگوں کے ہو گئے آج ...