Akhtar Husain Jafri

اختر حسین جعفری

  • 1932 - 1992

اختر حسین جعفری کی نظم

    جہاں دریا اترتا ہے

    ۱ سرشک خوں رخ مضمون پہ چلتا ہے تو اک رستہ نکلتا ہے ندی دریا پہ تھم جائے لہو نقطے پہ جم جائے تو عنوان سفر ٹھہرے اسی رستے پہ سرکش روشنی تاروں میں ڈھلتی ہے اسی نقطے کی سولی پر پیمبر بات کرتے ہیں مجھے چلنا نہیں آتا شب ساکن کی خانہ زاد تصویرو گواہی دو فصیل صبح ممکن پر مجھے چلنا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    اداس کہسار کے نوحے

    پورا جسم اور جلتا سورج پورے جسم اور جلتے سورج کے اطراف میں شوریدہ سر وحشی پانی دریاؤں کو پورے جسم اور وحشی پانی اچھے لگتے ہیں دونوں پر پھیلا کر اڑنا سارے رنگ سجا کر اڑنا تتلی کو ہموار ہوائیں اچھی لگتی ہیں ٹھنڈی ریت پہ جسم سنہرا سانس سے سانس کا رشتہ گہرا تم ماتھے سے ماتھا ...

    مزید پڑھیے

    امتناع کا مہینہ

    اس مہینے میں غارتگری منع تھی، پیڑ کٹتے نہ تھے تیر بکتے نہ تھے بے خطر تھی زمیں مستقر کے لیے اس مہینے میں غارتگری منع تھی، یہ پرانے صحیفوں میں مذکور ہے قاتلوں، رہزنوں میں یہ دستور تھا، اس مہینوں کی حرمت کے اعزاز میں دوش پر گردن خم سلامت رہے کربلاؤں میں اترے ہوئے کاروانوں کی مشکوں ...

    مزید پڑھیے

    اک انعام کے کتنے نام ہیں

    اک پہچان کے کتنے اسم ہیں اک انعام کے کتنے نام ہیں تیرا نام وہ بادل جس کا پیغمبر پر دشت جبل میں سایا ہے تیرا نام وہ برکھا جس کا رم جھم پانی وادی میں دریا کہلائے اور سمندر بنتا جائے تیرا نام وہ سورج جس کا سونا سب کی ملکیت ہے جس کا سکہ ملکوں ملکوں جاری ہے تیرا نام وہ حرف جسے امکان کی ...

    مزید پڑھیے

    میں غیر محفوظ رات سے ڈرتا ہوں

    رات کے فرش پر موت کی آہٹیں پھر کوئی در کھلا کون اس گھر کے پہرے پہ مامور تھا کس کے بالوں کی لٹ کس کے کانوں کے در کس کے ہاتھوں کا زر، سرخ دہلیز پر قاصدوں کو ملا؟ کوئی پہرے پہ ہو تو گواہی ملے یہ شکستہ شجر یہ شکستہ شجر جس کے پاؤں میں خود اپنے سائے کی موہوم زنجیر ہے یہ شکستہ شجر تو محافظ ...

    مزید پڑھیے

    ریت صحرا نہیں

    ریت صحرا نہیں، ریت دریا نہیں ریت بس ریت ہے میں فقط میں ہوں اور میری تصویر پر جو ہے مذکور پہچان میری نہیں مجھ میں کتنا ازل مجھ میں کتنا ابد، کتنی تاریخ ہے میں نہیں جانتا ایسے دن رات کو دل نہیں مانتا، پور پر جن کی گنتی ٹھہرتی نہیں آج بس آج ہے کل سحر تک یہی آج تاراج ہے

    مزید پڑھیے

    سدھائے ہوئے پرندے

    سوال بچے نے جو کیے تھے جواب ان کا دبی زباں سے وہی دیا ہے جو مجھ کو اجداد سے ملا تھا وہی پرانے سوال اس کے زمیں اگر خام ہے تو اس پر ہمارے پختہ مکان کیوں ہیں؟ اگر گلابوں کو رنگ خورشید سے ملا ہے تو دھوپ کا حسن کون سے پھول کی عطا ہے؟ وہی پرانے سوال اس کے وہی پرانا جواب میرا وہی گرہ وارد ...

    مزید پڑھیے

    آخری پیڑ کب گرے گا

    زمیں کی یہ قوس جس پہ تو مضطرب کھڑی ہے یہ راستہ جس پہ میں ترے انتظار میں ہوں زمیں کی اس قوس پر افق پر قطار اندر قطار لمحات کے پرندے ہمارے حصے کے سبز پتے سنہری منقار میں لیے جاگتی خلاؤں میں اڑ رہے ہیں زمیں کی اس قوس پر افق پر ہے نا بسر کردہ زندگی کی وہ فصل جس کا ہمیں ہر ایک پیڑ کاٹنا ...

    مزید پڑھیے

    اک حرف فسردہ داغ میں ہے

    اک حرف فسردہ داغ میں ہے اک بات بجھے چراغ میں ہے اک نام لہو کی گردشوں میں طوفان میں ڈولتا سفینہ ڈوبے نہ بھنور کے پار اترے اک شام کہ جس کے بام و در کو ہاری ہوئی صبح سے شکایت روٹھے ہوئے چاند کی تمنا اک راہ نورد جو یہ چاہے پاؤں نہ حد وفا سے نکلے سر سے نہ سفر کا بار اترے

    مزید پڑھیے

    سخن درماندہ ہے

    خنک موسم نہیں گزرا سفر سورج کرے تو ابر اس کے ساتھ چلتا ہے ابھی ندی کے پانی پر ہوا کے تازیانے سے نشاں پیدا نہیں ہوتا تبر کی ضرب کاری سے، شاخوں سے زمیں پر پتا پتا حرف گرتے ہیں کوئی فقرہ شجر کے زخم مہمل کی پذیرائی نہیں کرتا لہو معنی نہیں دیتا تو پھر قرطاس احمر ہو کہ ابیض رنگ پیراہن ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2